شہید سنوار کے آخری لمحات، اللہ کی قدرت کے کرشمے اور ہمارے کرنے کے کام

بدھ والے دن صبح 10 بجے ایک روٹین کی چیکنگ کے دوران ہیجڑائیلی فوجیوں کو پتہ چلا کہ رفح کے علاقے ’تل السلطان’ کی ایک عمارت میں کوئی شخص آ جا رہا ہے۔
چونکہ یہ علاقہ سارے کا سارا میدان جنگ ہے، اس لیے ہیجڑائیلیوں کا ماتھا ٹھنکا، مزید انہوں نے تحقیق کی تو انہیں علم ہوا کہ یہ کل تین لوگ ہیں اور مسلح ہیں۔
لہذا ظہر و عصر کے درمیان تین بجے اللہ کے شیروں اور ہیجڑائیلیوں میں فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا۔
اللہ کے شیروں کی تین رکنی ٹیم دو حصوں میں بٹ گئی، دو ایک بلڈنگ میں اور تیسرا دوسری بلڈنگ میں داخل ہو کر اوپر والے فلور پر مورچہ زن ہو گیا۔
ہیجڑائیلی دور سے اندھا دھند فائرنگ کرتے رہے اور بالآخر تنگ آکر انہوں نے ٹینک سے گولہ فائر کیا، جس سے دو اللہ کے شیر شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئے، جبکہ تیسرا شدید زخمی ہو گیا۔

آپ ایک مومن کا رعب و دبدبہ دیکھیں کہ صرف تین لوگ سامنے عمارتوں میں موجود ہیں، لیکن ہیجڑائیلیوں کو اتنی ہمت نہیں ہے کہ ان کو جا کر ہینڈز اپ کر سکیں۔
بے یار و مدد گار تین لوگ کلاشنز اور چند گرنیڈز جیسے معمولی ہتھیاروں کے ساتھ ہیں، جبکہ دوسری طرف ہجڑائیلی ٹینک لیے پھر رہے ہیں۔
ٹینک کا گولہ فائر کیا، خاموشی ہو گئی، لیکن پھر بھی ہمت نہیں ہوئی، لہذا ڈرون کیمرہ بھیجا یہ چیک کرنے کے لیے اندر کیا صورت حال ہے؟
اور پھر اس ہیجڑائیلی ڈرون نے خود ساری دنیا کے سامنے اپنی بزدلی کو بے نقاب کر کے پیش کیا کہ عمارت کے اندر صرف ایک شخص ہے، جو شدید زخمی ہے، اور اس نے منہ پر کپڑا لپیٹا ہوا ہے اور اس نے اس حالت میں بھی ڈرون پر لکڑی پھینک کر، اسے گرانے کی کوشش کی ہے۔

ہیجڑائیلوں کی بزدلی اور اللہ کے شیر کا رعب و دبدبہ دیکھیں، سارا کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر، پھر بھی ہمت نہیں ہوئی کہ آ کر اسے زندہ گرفتار کر لیں، بلکہ دوبارہ پھر بلڈنگ پر ٹینک کا گولہ داغ کر اسے تہس نہس کر دیا اور وہاں سے دم دبا کر بھاگ گئے۔
گویا زندہ گرفتار کرنا تو دور کی بات، ٹینک کے گولے سے بلڈنگ گرا کر بھی اس کے پاس پھٹکنے کی ہمت نہیں ہوئی، یعنی اللہ کا شیر شہید ہو گیا ہے، اور ہیجڑائیلی اس کی لاش سے بھی خوف زدہ ہیں، بدھ کا دن اور اس کے بعد ساری رات اسی حالت میں گزری۔
اگلے دن یعنی جمعرات کو آکر ملبے کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے پڑی لاشوں کو دیکھا، اور پھر ان کے ڈین این اے کروائے تو پتہ چلا کہ یہ ہم سے کتنا بڑا معرکہ سرزد ہو گیا ہے؟ یہ تو ہماری نیندیں حرام کرنے والا، 7 اکتوبر کا ماسٹر مائنڈ یحیی سنوار ہے…!

حقیقت یہ ہے کہ ہیجڑائیلیوں کو اگر پتہ چل جاتا کہ جس کی ڈرون ویڈیو ہم نشر کر رہے ہیں، منہ پر فلسطینی رومال (کوفیہ) لپیٹے اللہ کے شیر کا نام ’یحیی سنوار’ ہے، تو یہ ویڈيو کبھی نشر نہ ہوتی…!
کیونکہ اس کے متعلق تو انہوں نے ہمیشہ پراپیگنڈہ کیا کہ یہ خود پیچھے بیٹھ کر معصوموں کو لڑواتے ہیں، خود خندقوں میں چھپے رہتے ہیں، یہ جہاں بھی ہوتے ہیں، اپنے ارد گرد اسرائیلی قیدیوں کو رکھتے ہیں تاکہ ان پر کوئی حملہ نہ کر سکے..!
سنوار کی شہادت اور جرات و بہادری پر گویا اللہ تعالی نے ساری دنیا کو گواہ بنا دیا اور اس کے لیے اور کسی کو نہیں، بلکہ ہیجڑائیلیوں کو ہی استعمال کیا جنہوں نے خود ساری دنیا کو اپنے ڈرون کیمرے کی ویڈیو ریکارڈ کرکے یہ ذمہ داری ادا کی…!
کیا خود سنوار اگر یہ کرنا چاہتا تو کر سکتا تھا؟ کیا سنوار کی میڈیا ٹیم ایسا کر سکتی تھی؟
یہ اللہ کی شان ہے کہ اپنے ایک مجاہد بندے کے آخری لمحات اس کے دشمنوں کے ہاتھوں محفوظ کروا دیے…!

یحیی سنوار کی شہادت اور کچھ سمجھنے کی باتیں

1۔ سنوار جیسے قائدین تو بعد کی بات ہے، عام غزہ مجاہدین کا ہیجڑائیلیوں پر رعب و دبدبہ بھی اس واقعے سے نمایاں ہوتا ہے، کیونکہ مقتول یحیی سنوار ہے، اس سب کی تصدیق تو معرکے کے اگلے دن ہوئی، اس سے پہلے تو ہیجڑائیلی انہیں عام دہشت گرد سمجھ کر ہی ٹریٹ کر رہے تھے…! یہ ڈرون، ٹینک کا استعمال اور پورا ایک دن گزرنے کے بعد لاشوں کے قریب آنا، اس ہیبت و دہشت کی کہانی سناتا ہے، جو اس وقت مجاہدین کو لے کر ہیجڑائیلیوں کے اعصاب پر سوار ہے۔

2۔ یحیی سنوار کسی گلی محلے کے گینگ کا وڈیرہ نہیں، دنیا کی خطرناک ترین تنظیم کا سربراہ تھا، اس نے اپنی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کیے؟ اور بھلا قائدین بھی اس طرح میدان جنگ میں اتر آتے ہیں؟ اور یوں ایک طرح سے نہتے کود پڑتے ہیں؟ بلاشبہ یہ عزم و ثبات، جرات و بہادری، ایمان و ایقان اور توکل علی اللہ کی ایک لازوال داستان رقم ہو گئی ہے!
جس پر الزام تھا، میدان جنگ میں خود نہیں اترتا، اس نے نہ جانے کتنے معرکے یونہی تنِ تنہا یا چند رفقاء سمیت ایک سپاہی کی طرح لڑے ہوں گے!
بلاشبہ اس دور کے کوئی صلاح الدین ہیں تو یہی پاکباز ہستیاں ہیں۔۔۔!
یہاں سے ہیجڑائیلیوں کی انٹیلی جنس کی قابلیت کا بھانڈا بھی بیچ چوراہے پھوٹ گیا، جسے وہ خندقوں میں دیکھ رہے تھے وہ ان کی ناک تلے فرنٹ لائن پر موجود تھا!

3۔ ماہرین کے مطابق غزہ کی جنگ خطرناک ترین مرحلے میں داخل ہوچکی ہوئی ہے اور اس وقت مجاہدین نے ’لامرکزیت’ اور ’لیڈر لیس جنگ’ کی حکمت عملی اپنالی ہے کہ جو جہاں ہے، وہیں اپنا سربراہ خود ہے۔ کیونکہ رابطے کرنے سے، رابطے رکھنے سے پکڑے جانے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں، پھر اسی طرح لیڈران سے احکامات و اوامر کے انتظار و استقبال سے کئی اور مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ اور یحیی سنوار بذات خود اسی حکمت عملی کے تحت چل رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پاس برآمد ہونے والے سامان میں موبائل وغیرہ کسی بھی قسم کی کوئی کمیونیکیشن ڈیوائس تک نہیں تھی!

4۔ سنوار نے اپنی ایک تحریر میں ذکر کیا ہے کہ جیل میں اسے خواب آئی تھی کہ اب وہ یہاں سے نکل کر دشمن سے دوبدو ہوگا، انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح کاٹتا ہوا، اللہ کی راہ میں سرخرو ہو جائے گا۔ سنوار کی تقاریر بھی اس بات کی شاہد ہیں کہ وہ ہر وقت سر ہتھیلی پر رکھ کر شہادت کے لیے تیار رہتا تھا۔ مجاہدین اور امت مسلمہ کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے کئی بار اس نے خود کو پبلک پلیسز میں شو کروایا۔ کئی بار خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے موت سے نہ ڈراؤ، یہ میرے لیے سب سے بہترین تحفہ ہے، جو غاصب دشمن مجھے دے سکتا ہے۔ میں کرونا، ہارٹ اٹیک، حرکت قلب بند ہونے یا کسی ٹریفک حادثے میں مرنے کی بجائے دشمن کے ہاتھوں شہادت کو پسند کرتا ہوں۔
ایک بار تو لائیو ویڈیو چل رہی تھی، جس میں کہا کہ سارے ہیجڑائیلی سن رہے ہیں، میں دس پندرہ منٹ تک یہاں لائیو ہوں، پھر پندرہ بیس منٹ مجھے نکلتے نکلتے لگ جائیں گے، اسی طرح آگے میں نے جس طرف جانا ہے، پچیس تیس منٹ میں اس طرف بھی پیدل چل کر جاؤں گا، غاصبو تمہارے پاس پورا ایک گھنٹہ ہے، آؤ جو کر سکتے ہو کرو، ڈرنا بھاگنا تو دور کی بات: لم یرمش لی جفن… میری پلکوں کی حرکت اور اشارہ ابرو میں بھی فرق محسوس نہیں کرو گے!
یوں محسوس ہوتا ہے کہ بیس پچیس سال ہیجڑائیلیوں کی قید میں زندگی گزارنے کے بعد آزاد ہوتے ہی یحیی شہادت کی تلاش میں لگ گئے تھے، اور پچھلے سال 7 اکتوبر انہوں نے اسی شوق شہادت میں ترتیب دیا تھا، لیکن پھر بھی اللہ تعالی نے انہیں ایک سال مزید موقع عطا کیا کہ وہ غاصبوں کو ناکوں چنے چبواتے رہے!

5۔ سنوار نے جس طرح قائد اور غازی کی حیثیت سے امت مسلمہ کے حوصلوں کو بلند رکھا اور کافروں کی نیندیں حرام کیے رکھیں، ان کی شہادت بھی اہل اسلام کے لیے ایمان کی تازگی، اہل کفر کے لیے باعث عار و شرمندگی اور منافقین کے لیے باعث اذیت و تکلیف بن گئی۔
ساری دنیا کے مسلمان بغیر مسالک و مکاتب کی تقسیم اور جغرافیائی تفریق کے، اس قائد کی قابل رشک شہادت پر اس کے لیے دعاگو اور رطب اللسان ہیں۔ جبکہ یہودی، عیسائی اور بعض منافقین اس پر خوشیاں منا رہے ہیں۔
کافر تو کافر ٹھہرے لیکن منافقین وہ ذلیل ترین طبقہ ہے، جنہیں ج۔ہ۔اد سے نفرت کی یہ سزا ہے کہ انہیں اللہ تعالی اپنے شیروں اور اولیاء الرحمن کی طرف کھڑے ہونے کی بھی توفیق نہیں دیتا، بلکہ انہیں اس گروہ میں کھڑا کرتا ہے، جو حزب الشیطان اور غاصبوں اور دشمنوں کا گروہ ہے۔
إن تمسسکم حسنة تسؤهم وإن تصبكم سيئة يفرحوا بها.
مسلمانوں کی شہادتوں پر خوش ہونے والوں کو بعض لوگ ’خوارج’ کہہ رہے ہیں، حالانکہ اپنی تمام گمراہیوں کے باوجود خوارج میں یہ گھٹیا وصف نہیں تھا، بلکہ یہ حرکتیں اس دور میں منافقین اور روافض سر انجام دیا کرتے تھے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ تاریخ میں عموما منافقین کا کردار روافض جیسے گروہوں نے ادا کیا، لیکن پہلی بار دیکھنے میں آ رہا ہے کہ کچھ ایسے لوگ یہودیوں کی بولی بول رہے ہیں، جن کی ساری کی ساری تاریخ دعوت و عزیمت اور جہاد سے عبارت تھی!
ونعوذ بالله من الخذلان والحور بعد الكور!!

6۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر فلسطینیوں کی مزاحمت کا کوئی فائدہ بھی ہے؟ اس حوالے سے میں معروف صحافی آصف محمود صاحب کا ایک اقتباس ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہے، رقمطراز ہیں:
’’طعنے تو زمانے نے جلال الدین خوارزم شاہ کو بھی بہت دیے ہوں گے کہ کمزوری کے عالم میں بلاوجہ چنگیز خان جیسی سپر پاور سے لڑتا ہے اور لوگ مرواتا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے سفاک پر انگلی اٹھانے کی نسبت مظلوم پر فرد جرم عائد کرنا آسان ہوتا ہے۔
حقیقت مگر یہ ہے کہ جلال الدین خوارزم شاہ کی مزاحمت نے منگولوں کو الجھائے رکھا اور وہ سرزمین حجاز میں مقامات مقدسہ کا رخ نہ کر سکے۔ مورخین نے لکھا ہے صرف یہی ایک کامیابی ایسی ہے جو بے سرومان خوارزم شاہ کو سرخرو کرنے کو کافی ہے۔
فلسطینی مزاحمت کو ایک صدی بیت چکی۔ ان بے بس لوگوں نے جنگ عظیم کے بعد سے اب تک وہ قرض بھی اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔
اسرائیل کا معاملہ تو واضح ہے۔ اس کا دعوی صرف غزہ پر نہیں وہ promised land اور biblical land کے تصور کے تحت بہت آگے تک جانا چاہتا ہے۔
جس مزاحمت نے لہو کی دیوار کھڑی کر کے اسے اب تک فلسطین میں ہی الجھا رکھا ہے اس کی تحسین آپ بے شک نہ کریں ، وقت کرے گا۔
جومقتل میں کھڑے فلسطینیوں پر طعنہ زن ہیں کہ ان کی حکمت عملی درست نہ تھی وہ بتا سکتے ہیں کہ عافیتوں سے آسودہ مسلم دنیا کی اس ایک سو سال میں کیا حکمت عملی رہی؟’’

7۔ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ایک عالم طالبعلم یا عالم دین کی حیثیت سے یا ایک عام مسلمان کی حیثیت سے ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ظاہری بات ہے فرنٹ لائن پر جا کر میدان کارزار میں شرکت یہ ان مجاہدین اور افواج کا کام ہے، جنہیں اس مقصد کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ اس قسم کے واقعات سنا کر، بیان کرکے عام نوجوانوں کو الٹے سیدھے رستوں پر لگانا، اس کے نتائج کبھی بھی درست نہیں رہے۔
ہاں البتہ ہم فلسطین کی اہمیت و فضیلت، لوگوں کے دلوں میں فلسطین اور اہل فلسطین کی محبت اجاگر کر سکتے ہیں۔ ان کے لیے دعائیں کر سکتے ہیں، اگر مالی تعاون کی کوئی صورت ممکن ہو تو اس میں شرکت کر سکتے ہیں، اسی طرح میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہم اپنے بھائیوں کا دفاع اور ان سے اظہار یکجہتی کر سکتے ہیں۔ اور جن بنیادی وجوہات کے سبب ذلت و پستی پوری امت پر چھائی ہے، ہم تعلیم و تربیت، تزکیہ و احسان، وعظ و تبلیغ کے ذریعے اس میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ محض سوشل میڈیا پر طوفان بپا کیے رکھنا اور خود بنیادی عقائد و عبادات سے غفلت کا شکار رہنا یہ قطعا درست رویہ نہیں ہے۔

#خیال_خاطر