سوال (3751)
ایک آدمی کسی سے پلاٹ کا سودا کرتا ہے اور کچھ رقم بطور بیعانہ لے لیتا ہے، کچھ دن کے بعد اسے خیال آتا ہے کہ پلاٹ نہیں بیچنا چاہیے، کیا اب اسے اختیار حاصل ہے کہ وہ یک طرفہ طور پر سودا ختم کردے، یا خریدنے والے کو راضی کرنا ضروری ہے؟
جواب
بیع و شراء رضامندی سے ہوتا ہے، لہذا اگر کسی بامر مجبوری سودا نہیں بن رہا ہے، وہ پیچھے ہٹ رہا ہے، تو خریدنے والے کو چاہیے کہ اس سے نرمی کرے، اللہ تعالیٰ نرمی کو پسند کرتا ہے، وہ اپنا بیعانہ واپس لے لے جو اس نے بیعانہ دیا تھا، اس کو چاہیے کہ وہ اس کے علم میں لائے کہ میں یہ سودا ختم کر رہا ہوں یہ آپ کا بیعانہ ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
شریعت کے مطابق، جب کسی شخص نے دوسرے کے ساتھ خرید و فروخت کا معاہدہ کیا ہو اور بیعانہ بھی لے لیا ہو، تو اس صورت میں سودا ختم کرنے کے لیے فریقین کی رضا ضروری ہے۔ اسلام میں خرید و فروخت کے معاہدے کی مکمل پاسداری کی تعلیم دی گئی ہے، اور فریقین پر اس معاہدے کو پورا کرنا ضروری ہے۔ جب معاہدہ مکمل ہو جائے اور بیعانہ بھی دیا جا چکا ہو، تو بیچنے والے کے لیے معاہدہ یک طرفہ طور پر ختم کرنا جائز نہیں۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
“المسلمون على شروطهم”
(مسلمان اپنی شرطوں (معاہدوں) پر قائم رہتے ہیں)
اگر معاہدہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا تو اس وقت تک دونوں فریقوں کو معاہدہ ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ مگر جب ایک فریق بیعانہ دے چکا ہو اور معاہدہ مکمل ہو چکا ہو، تو اب یک طرفہ طور پر اس معاہدے کو ختم کرنا درست نہیں۔
بیعانہ کو بطور ضمانت لیا جاتا ہے، تاکہ خریدار یا بیچنے والا معاہدے کی تکمیل کے لیے سنجیدہ ہو۔ بیعانہ کا مقصد معاہدے کو مستحکم کرنا ہوتا ہے، اور اس کا مقصد کسی بھی فریق کو یک طرفہ طور پر معاہدہ ختم کرنے کا اختیار دینا نہیں۔
اب اگر بیچنے والے کو پلاٹ بیچنے کا ارادہ بدلنا ہو، تو وہ خریدار سے بات کرے اور اس کی رضا سے معاہدہ ختم کر سکتا ہے۔ اگر خریدار راضی نہ ہو تو بیچنے والے کو معاہدہ جاری رکھنا ہوگا۔
اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی معاہدہ کو معاف کرنے یا ختم کرنے کا اختیار دوسرے فریق کی رضامندی پر منحصر ہے، اور یہ اس کی سعی پر منحصر ہے کہ وہ دوسرے فریق کو راضی کرے۔
بیچنے والے کو یک طرفہ طور پر سودا ختم کرنے کا اختیار نہیں ہے، بلکہ اسے خریدار کی رضامندی کی ضرورت ہوگی۔ دونوں فریقوں کی رضا کے ساتھ ہی سودا ختم ہو سکتا ہے، اور بیچنے والے کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ معاہدے کی شرائط کی پابندی کرے، کیونکہ اسلامی شریعت میں معاہدوں کی پاسداری کا حکم دیا گیا ہے۔
خرید و فروخت میں اخلاقی تعلیمات کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے اس اعتبار سے فریقین میں ہر فریق دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرے.
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ
سائل: جی شیوخ کرام! دور حاضر میں بیعانہ کی رقم کو دگنا واپس کرنے کی شرط لگائی جاتی ہے، اگر طے شدہ سودا نہ کرنا ہو، اس کی بھی وضاحت فرما دیں کیا ایسا کرنا درست ہے؟ یعنی بیعانہ کی شرط یہ ہوتی ہے کہ اگر خریدار طے شدہ سودے سے انحراف کرے تو اس کا بیعانہ ضبط اور اگر بائع انحراف کرے تو اسے وہ بیعانہ ڈبل کرکے واپس دینا ہوتا ہے۔
جواب: یہ معاملہ “بیعانہ” اور اس سے متعلقہ شرطوں سے متعلق ہے۔ شریعت کے مطابق معاملات میں انصاف، دیانت داری اور ظلم سے بچنا ضروری ہے۔
بیعانہ کی اصل حیثیت:
بیعانہ ایک پیشگی رقم ہوتی ہے جو خریدار بائع کو اس نیت سے دیتا ہے کہ اگر سودا مکمل ہو تو یہ قیمت میں شامل ہو جائے، اور اگر خریدار خود ہی انکار کرے تو یہ بائع کے پاس بطور ہرجانہ باقی رہے۔
البتہ یہ شرط کہ اگر بائع سودا نہ کرے تو وہ بیعانہ کی رقم دوگنی کر کے واپس کرے، شریعت میں غرر اور معاملے میں ظلم کے زمرے میں آتی ہے۔
اگر خریدار انحراف کرے تو اس کا بیعانہ ضبط ہو جاتا ہے، لیکن اگر بائع انحراف کرے تو اسے دوگنی رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔
اس میں ایک قسم کا غیر یقینی نقصان (غرر) پایا جاتا ہے، کیونکہ بیعانہ کو دوگنا کر کے واپس کرنا کسی اصل نقصان کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ محض ایک شرط کے تحت ہوتا ہے، جو کہ جوئے (قمار) اور غیر یقینی سودوں کے مشابہ ہو سکتا ہے۔
شرعی طور پر درست حل:
اس امر پر اختلاف ہے کہ فریقین چاہتے ہیں کہ بائع کے انکار کی صورت میں خریدار کو کوئی معقول ہرجانہ ملے، تو وہ اصل بیعانہ کے برابر رقم کی واپسی یا سودا نہ کرنے کی وجہ سے ہونے والے حقیقی نقصان کی تلافی پر متفق ہو سکتے ہیں، کیا ان کا یہ اتفاق جائز ہو گا یا نہیں۔ اس پر مشائخ کی رائے لے لیں میری ذاتی رائے میں تو یہ اتفاق بھی جائز نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ یہ شرط کہ “اگر بائع سودا نہ کرے تو بیعانہ دوگنا کر کے واپس کرے” شریعت کے مطابق درست نہیں، کیونکہ اس میں غرر اور غیر منصفانہ شرط شامل ہے۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ
خریدار کا چیز کو خریدنے سے انکار کی صورت میں بیعانہ واپس کرنا ضروری ہے۔ اسے ضبط کرنا جائز نہیں ہے۔
نھی رسول اللہ عن بیع العربان
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ