سوال (5321)

ایک شخص نے یتیم خانے سے بچہ اڈاپٹ کیا ہے، لیکن اس کی ولدیت کا علم نہیں ہو سکا ہے، اب اس کو اپنا نام دیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو پھر کیا صورت ہو گی؟

جواب

پہلے تو کئی ایک کیسز میں یہ بات ہی محل نظر ہے کہ بچوں کی ولدیت کا پتہ نہیں چلتا، لوگ جان بوجھ کر تساہل کرتے ہیں، تاکہ اصل ولدیت نہ لکھوانی پڑے، لیکن اگر بہر صورت کوئی ایسی صورت ہو بھی تو پھر کاغذات میں بطور سرپرست اپنا نام لکھوائے، بطور والد لکھوانا جائز نہیں، کیونکہ یہ واضح جھوٹ ہے، وہ اس کا سرپرست اور کفیل ہے، والد نہیں ہے۔ کسی انسان کا والد وہی ہوتا ہے جس کی پشت اور بستر پر وہ پیدا ہوتا ہے۔
بعض علمائے کرام تاویل کرکے بطور والد نام لکھوانے کی اجازت دیتے ہیں، لیکن یہ موقف مرجوح ہے، ایک تو صریح نص کے خلاف ہے، دوسرا اس میں کئی ایک مفاسد ہیں۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

سائل: پھر ولدیت میں کس کا نام لکھوائیں۔ اگر سچی نیت سے تلاش کے باوجود بھی نہ ملے؟
جواب: جواب میں لکھا تو ہوا ہے کہ پالنے والے کا ولدیت کی بجائے بطور ’سرپرست‘ نام لکھا جائے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

ہم نے اس پر کئی بار عرض کیا تھا کہ مجبوری کے احکامات الگ ہوتے ہیں، جو چیز مضیق ہوتی ہے، اس کو کھول دیا جاتا ہے،

“الضرورات تبیح المحظورات”

ضرورتیں ممنوع کاموں کو جائز کر دیتی ہیں، سرپرست کا خانہ ہر جگہ نہیں ہوتا، ایسی صورت میں جب مجبوری ہو تو پالنے والے کا نام دیا جا سکتا ہے، باقی ایک پیپر ایسا ہونا چاہیے، جس میں واضح ہو کہ بچہ ان کا نہیں ہے، تاکہ وراثت میں مسائل نہ بنیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ