سوال (5047)

ایک شخص اہل حدیث مسجد میں امام وخطیب ہے اور یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کو اعلانیہ کافر اور لعنتی کہتا ہے اس کی امامت کا کیا حکم ہے؟

جواب

اس کو نصیحت کی جائے اور اس کی ھدایت کی دعا کی جائے۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

تکفیر معین بہت خطرناک ہے، ایسا نہ ہوں کہ تکفیر معین کرنے والا اپنے پاس ادلہ قطعیہ و قرائن نہ رکھتا ہو تو اس کا یہ کفر والا فتویٰ خود اسی پر لوٹ آئے، ایسے نادان لوگوں کو منبر ومحراب پر لانے والے بھی علوم شرعیہ، قواعد شرعیہ سے نابلد نظر آتے ہیں، انہیں بڑے شیوخ کی مجلس میں دلائل و براہین کے ساتھ مسئلہ تکفیر اور اس کی نزاکت کو سمجھایا جائے اور اعلانیہ رجوع اور توبہ کرنے کا حکم دیا جائے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

یہ کام کئی اہل علم کرتے ہیں اور وہ اپنے اس موقف کو اعلانیہ طور پر بیان بھی کرتے ہیں لیکن اپنے موقف کو (جو شدید اختلاف والا ہو ) اس انداز میں بیان کرنا درست نہیں ہے۔
ہمیں اعتدال کی راہ پر گامزن ہونا چاہیے۔

فضیلۃ الباحث کامران الٰہی ظہیر حفظہ اللہ

دیکھیں جہاں بات ہمارے سلف صالحین کے اختلاف کی آ جاتی ہے تو وہاں ہم کسی ایک کو واضح گمراہ نہیں کہہ سکتے ورنہ پھر وہ ہمارے سلف صالحین نہیں کہلائے جائیں گے، پس ہمارے پاس چونکہ امام احمد بن حنبل کا موقف یزید کے کفر کا آتا ہے تو اس فتوی کی وجہ سے اگر کوئی یزید کی تکفیر معین کرتا ہے تو ہم اس کو سمجھا تو سکتے ہیں اس پہ اجتہادی غلطی کا فتوی تو لگا سکتے ہیں، لیکن اگر اس کو ہی اسلام سے نکال دیا یا خارجی بنا دیا تو ہم خود پھر کیا ہو سکتے ہیں ہاں ہم اس کو سمجھا سکتے ہیں کہ جی امام احمد بن حنبل نے اس سے رجوع کر لیا تھا اب یہ اسکو سمجھ آئے یا نہ آئے یہ اس کی مرضی ہے یا اس کی بات ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے یہ ہماری مرضی ہے، لیکن ہم سلف صالحین میں سے کسی ایک موقف کو یکسر گمراہی نہیں کہہ سکتے کہ اس کو اسلام سے ہی نکال دیں،
پس بدعتی اور مفتون کے پیچھے تو نماز ہو جاتی ہے جیسا کہ بخاری نے باب باندھا ہے اس لئے کسی کے ہاں یزید کو کافر کہنے والا بدعتی یا اجتہادی غلطی پہ ہے تو بھی اس کے پیچھے نماز ہو جائے گی، البتہ اگر وہ اس کو گمراہ اور کافر سمجھتا ہو تو پھر یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے۔

فضیلۃ الباحث ارشد حفظہ اللہ

بارك الله فيكم و عافاكم
مجھے آپ کا تعارف تو نہیں مگر آپ کی یہ گفتگو محل نظر ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

شیخ محترم میرا نام ارشد ہے شیخ الاسلام ابن تیمیہ لاہور سے فارغ ہوں جامعہ رحمانیہ لاہور اور مرکز عبداللہ بن مسعود لاہور میں پڑھاتا رہا ہوں، محدث فورم پہ بھی کئی سال رکن انتظامیہ کے طور پہ حافظ خضر بھائی کے ساتھ کام کیا ہے ویسے واپڈا میں آفیسر ہوں آج کل ڈی جی خان ہوتا ہوں۔
شیخ محترم اللہ آپ کو میری اصلاح کی حرص پہ اجر عظیم عطا فرمائے، شیخ محترم امام احمد بن حنبل کا ایک قول مجھے واقعات و شواہدات کی روشنی میں بہتر لگتا ہے پس میں اسکی روشنی میں یزید سے محبت کرنے یا رحمہ اللہ کہنے کو غلط سمجھتا ہوں اسی وجہ سے اپنی ایک محبوب ہستی ڈاکٹر ذاکر نائیک کو بھی اس معاملے میں درست نہیں سمجھتا بلکہ انکو اجتہادی غلطی پہ مانتا ہوں ہاں گمراہ نہیں کہتا، اس کے برعکس امام احمد بن حنبل سے ایک قول یزید کی تکفیر معین کا بھی ہے لیکن باقی واقعات و شواھدات کو دیکھتے ہوئے میں اسکو درست نہیں مانتا ہوں۔ اور یزید کو ایک عام مسلمان ہی سمجھتا ہوں البتہ امام احمد کے اس تکفیر معین کے قول اور بعض دوسری روایات کی وجہ سے کوئی غلطی سے یزید کو کافر سمجھ لیتا ہے تو اس کو سمجھانا تو چاہئے مگر اسکو گمراہ کہنا یا اسکے پیچھے نماز نہ ہونا یہ درست نہیں ہے کیونکہ امام احمد کے تکفیر معین کے قول سے کسی کو غلطی لگتی ہے اور وہ بھی یزید کی تکفیر معین کر لیتا ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کافر کہنے والے پہ لوٹ آئے گی کیونکہ اس کے پاس ایک قرینہ موجود ہے یعنی امام احمد بن حنبل کا معین تکفیر کا قول موجود ہے یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے عمر ؓ پر حاطب ؓبن ابی بلطہ کو منافق کافر کہنے پہ تکفیر نہیں لوٹی تھی کیونکہ انکے پاس علم نہیں تھا لیکن ایک قرینہ موجود تھا، پس میرے نزدیک اسکو سمجھایا جائے گا اسکی غلطی بتائی جائے گی لیکن اسکو گمراہ کہنا یہ درست نہیں ہو گا اگر اس پہ کوئی شرعی دلیل موجود ہے تو وہ مجھے سمجھا دیں۔ جزاکم اللہ خیرا یا شیخ

فضیلۃ الباحث ارشد حفظہ اللہ

بارك الله فيكم وعافاكم وسلمكم من كل شر وفتن و سوء ومكروه
(1): میں نے یزید بن معاویہ کی حمایت نہیں کی بلکہ ایک اصولی و شرعی مسئلہ کی نزاکت اور بلا دلیل شرعی حکم تکفیر معین کی نزاکت کو بیان کیا اور حدیث مبارک کی روشنی میں لکھا کہ اگر کہا ہوا شخص کافر نہیں تو کہنے والے وہ کفر لوٹ آتا ہے۔
(2): میں نے کبھی یزید بن معاویہ کے بارے منبر و محراب میں بات نہیں کی مگر اتنی بات کہ جو باتیں ان سے منسوب ہو کر بیان ہوتی ہیں وہ غیر ثابت ہیں، میں بھی نہ ان سے محبت کرتا ہوں نہ ہی ان پر طعن کرتا ہوں، ہاں جو چیزیں غلط ہیں انہیں غلط کہتا ہوں۔
(3): امام کا قول باسند صحیح پیش کریں جس میں تکفیر معین ہے یا ان کی کتاب سے پیش کریں۔
(4): امام أحمد سے کیا رجوع ثابت نہیں ہے؟
(5): کیا امام صاحب کی ائمہ متقدمین میں سے کسی نے موافقت کرتے ہوئے تکفیر معین کی تھی؟
(6): کیا امام صاحب کا یزید کی تکفیر معین کرنا ہمارے لیے حجت ہے؟
(7): کیا ان خطیب صاحب نے واقعی اسی قول کے سبب تکفیر معین کی تھی؟
میرے لکھے ہوئے الفاظ بغور پڑھیں میں نے کیا لکھا تھا شروع کی سطور میں تکفیر معین بہت خطرناک ہے ایسا نہ ہو کہ تکفیر معین کرنے والا اپنے پاس ادلہ قطعیہ و قرائن نہ رکھتا ہو تو اس کا یہ کفر والا فتویٰ خود اسی پر لوٹ آئے۔
یہ میرے بنیادی الفاظ تھے۔
اب مان لیں کہ ان کے پاس امام احمد کا قول تھا تو کیا کسی کی تکفیر معین کے لئے یہ ایک قول کافی ہے؟ میں نے وہ تاثر کہیں نہیں ذکر کیا جو آپ بیان کر رہے ہیں۔
آخری بات: تکفیر معین تب جائز ہے جب حجت قائم ہو جائے ادلہ و قرائن قوی و صحیح ہوں اور کوئی موانع باقی نہ ہو اور یہ فیصلہ ایک عام بندہ نہیں کرے گا بلکہ وہ کرے گا علوم شرعیہ قواعد شرعیہ، اصول شرعیہ سمیت دیگر علوم اسلامیہ پر رسوخ رکھتا ہو یعنی جو صحیح معنوں میں منصب قضاء و فتوی پر فائز ہو۔
جہاں تک بات اہل بدعت کے پیچھے نماز پڑھنے کی تو بدعت مکفرہ کے مرتکب امام کے پیچھے نماز بالاتفاق جائز نہیں ہے، رہا مسئلہ سیدنا عثمان ذوالنورین رضی الله عنہ کے آخری ایام میں نماز پڑھنے کا تو وہ لوگ تب ہر اعتبار سے زیادہ قوت والے تھے تو وہ صورت حال آج بھی ہو تو یہی صورت حال ہو گی۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

اللہ تعالی آپ کی یہ اوپر والی دعائیں قبول فرمائے اور واقعی مجھے شر اور فتنوں وغیرہ سے بچائے:

اللھم وفِّقنا لاصابۃ الصواب والحق وزیِّنا بالاخلاص والصدق والف بین قلوبنا واصلح ذات بیننا یا رب العالمین

شیخ محترم اللہ آپ کی عمر لمبی کرے ابراھیم علیہ السلام نے بھی اپنے دل کے اطمینان کے لئے اللہ سے التجا کی تھی میں نے بھی اپنی دلی کنفیوشن کے لئے آپ سے سیکھنا چاہ رہا ہوں اس پہ آپ نے کچھ نمبر بنا کر لکھ دیئے ہیں میں نے نمبر وار پڑھا ہے کچھ اشکلات تو الحمد للہ سمجھ آ گئے لیکن کچھ ابھی باقی ہیں اس لئے نمبر وار ہی پوچھ لیتا ہوں شیخ آپ نے کہا ہے کہ
(1) میں نے یزید بن معاویہ کی حمایت نہیں کی بلکہ ایک اصولی و شرعی مسئلہ کی نزاکت اور بلا دلیل شرعی حکم تکفیر معین کی نزاکت کو بیان کیا اور حدیث مبارک کی روشنی میں لکھا کہ اگر کہا ہوا شخص کافر نہیں تو کہنے والے وہ کفر لوٹ آتا ہے۔
تو شیخ محترم یہ تب ہوتا ہے جب دوسرے کو کافر کہنے والے کے پاس کوئی تاویل نہ ہو، اسی لئے تو امام بخاری نے اس حدیث پہ باب ہی یہ باندھا ہے کہ من کفر اخٓاہ بغیر تاویل۔ پس میں نے کہا کہ کوئی تاویل کرتا ہے امام احمد کے قول سے یا کسی اور قول سے تو اسکے لئے یہ بات نہیں ہو گی۔ واللہ اعلم
شیخ آپ نے مزید فرمایا کہ
(2) میں نے کبھی یزید بن معاویہ کے بارے منبر و محراب میں بات نہیں کی مگر اتنی بات کہ جو باتیں ان سے منسوب ہو کر بیان ہوتی ہیں وہ غیر ثابت ہیں میں بھی نہ ان سے محبت کرتا ہوں نہ ہی ان پر طعن کرتا ہوں ہاں جو چیزیں غلط ہیں انہیں غلط کہتا ہوں۔
جی شیخ یزید کے بارے واقعی اکثر باتیں غیر ثابت ہیں لیکن حسین کا قصاص نہ لینا اور ابن زیاد کو مزید علاقہ دینا اور اس طرح کی کچھ باتیں ثابت بھی ہیں پس اس وجہ سے میں اس کو ایک عام مسلمان ہی سمجھتا ہوں۔
اسکے بعد شیخ آپ نے فرمایا کہ
(3) امام کا قول باسند صحیح پیش کریں جس میں تکفیر معین ہے یا ان کی کتاب سے پیش کریں۔
(4) امام أحمد سے کیا رجوع ثابت نہیں ہے؟
(5) کیا امام صاحب کی ائمہ متقدمین میں سے کسی نے موافقت کرتے ہوئے تکفیر معین کی تھی؟
شیخ محترم میرے یا آپ کے نزدیک ایسا قول با سند نہ بھی ہو لیکن کسی اور کے ہاں تو ایسا قول با سند ہو سکتا ہے، کیونکہ بالکل ہی یہ موضوع بات نہیں ہے ویسے بھی ہم جب کسی مشرک کو شرک کرنے کی تاویل کا حق دیتے ہیں تو اس وقت اسکو یہ تو نہیں کہتے کہ تم نے جو تاویل جس دلیل کی بنا پہ کی ہے وہ تو دلیل ہی کمزور ہے۔
شیخ محترم آپ نے مزید کہا ہے کہ
(6) کیا امام صاحب کا یزید کی تکفیر معین کرنا ہمارے لیے حجت ہے؟
شیخ محترم میرے نزدیک تو ایک عالم اور اتنے بڑے امام کا فتویٰ بالکل حجت ہو سکتا ہے کیونکہ عامی تو یہ فتویٰ دینے کا اھل نہیں وہ تو کسی امام کے فتویٰ کو ہی لے گا۔ یا تو کہیں کہ ہر آدمی ایسا فتویٰ دے سکتا ہے اور دوسرا شیخ محترم یہاں کوئی جمہوریت تو چلتی کہ کم از کم اتنے ہوں گے تو فتویٰ قبول ہو گا۔ اب یا تو یہ ہونا چاہئے کہ ہر کوئی رفع الیدین کی طرح خود ہی فیصلہ کرے کہ کس کا فتویٰ درست ہے لیکن ایسا نہیں کرنے دیا جاتا تو پھر کسی بڑے امام عالم کا فتویٰ ہی حجت ہو سکتا ہے چاہے وہ ایک ہی عالم کیوں نہ ہو۔
شیخ محترم آپ نے مزید فرمایا کہ
(7) کیا ان خطیب صاحب نے واقعی اسی قول کے سبب تکفیر معین کی تھی؟
تو شیخ محترم یہ تو مجھے علم نہیں ہے لیکن اسکے برعکس بھی تو نہیں ہے توجب ایک سے زیادہ احتمال ہے تو یا تو میں جا کر پہلے اس سے پوچھوں یا پھر جو ممکنہ احتمالات ہو سکتے ہیں اس میں جو بہترین احتمال ہے اسکو فکس کر دوں یہی اجتنبوا کثیر من الظن سے سبق ملتا ہے۔
انتہائی قابل احترام شیخنا میں نے آپ کے لکھنے پہ ہی سمجھنا چاہا ہے اگر آپ کو اچھا نہ لگا ہو تو ضرور بضرور مجھے حکم کر دیں میں دوبارہ نہیں سمجھنا چاہوں گا۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے آمین

فضیلۃ الباحث ارشد حفظہ اللہ

(1) نمبر ایک کا جواب اسی جگہ موجود ہے غور کریں۔
مسئلہ تکفیر معین کب لگتا ہے اس پر غور کریں۔
میرے الفاظ کا مطلب وہی ہے اس حدیث کے بارے میں کہ جو بلا دلیل شرعی و عدم قرائن کے کہتا ہے۔
کسی ایک قول پر یا بعض باتوں کی وجہ سے جو کفر اکبر کے درجہ پر نہیں ایسا سخت فتویٰ لگانا مرجوح ہے اور خطرناک بھی ہے۔
پھر کہتا ہوں میری باتیں میرے الفاظ یزید کے متعلق تھے ہی نہیں میں نے تو مطلقا بات کی مسئلہ تکفیر معین پر۔
اس کی بعض غلطیاں جو ہیں وہ اس کا اور رب العالمین کا معاملہ ہے ہمیں انہیں اچھالنے کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی قیامت کے دن ہم سے اس بارے باز پرس ہونی ہے۔
میں بھی یزید کو مسلم مانتا ہوں مگر اس پر سکوت کرنے کو ترجیح دیتا ہوں کہ یہی دروازہ ہے امیر معاویہ تک پہنچنے کا ہے۔
(3) نمبر کا آپ نے کوئی حوالہ پیش نہیں کیا جو اصل چیز تھی۔
(4) نمبر کا جواب بھی آپ کے ذمہ ہے۔
(5) نمبر کا کوئی علمی و اصولی جواب نہیں دیا گیا ہے۔
(6) میں خود کسی مسلم کو جو تاویل کرتے ہوئے کوئی شرکیہ عقیدہ رکھتا ہے پر شرک کا فتویٰ نہیں لگاتا ہوں۔
(6) نمبر سے میں متفق نہیں ہوں۔
پہلے آپ اسے ثابت کریں۔
اور یہ بھی کہ کیا ان کا یہ فتویٰ اصول شرعیہ کی روشنی میں درست تھا یا خطا پر مبنی تھا۔
(7) یہ بات تو میں نے بات کو واضح کرنے کے لیے پوچھی ہے۔
باقی میرا ان خطیب صاحب پر کوئی ایسا جملہ دکھا دیں جو خلاف شرع ہو۔
میں نے جو لکھا وہ صرف مسئلہ کی نزاکت و حساسیت کے سبب لکھا اور آگاہ کیا ہے، آپ دوبارہ میری پہلی تحریر پڑھ سکتے ہیں۔
بارك الله فيكم وعافاكم ورفع درجاتكم

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

سائل: امام احمد سے یزید کی تکفیر کی کیا دلیل ہے؟
جواب: محترم بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر دے، پہلی بات یہ یاد رکھیں کہ میں یزید کے کفر کا قائل بالکل نہیں ہوں بلکہ اسکو کافر کہنے والے کو غلط سمجھتا ہوں لیکن یہ اجتہادی غلطی سمجھتا ہوں گمراہ نہیں سمجھتا کہ اسکے پیچھے نماز ہی نہ ہو جیسا کہ اصل سوال تھا کہ ایسے امام کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے یا نہیں، دوسری بات یہ کہ جو یزید کو کافر سمجھتے ہیں وہ اسکی تاویل کرتے ہیں اور تاویل میں کچھ علما کے اقوال اور اثار ہوتے ہیں پس اگر آپ اگر یہ کہیں کہ چونکہ اسکی سند ہی آپ کے نزدیک درست نہیں ہے تو وہ تاویلات ہی غلط ہو جائیں گے اور ان تاویلات کے سہارے موقف بھی غلط ہو جائے گا تو پھر صحابہ میں جو لڑائیاں ہوئی ہیں وہ تاویلات کے سہارے ہی تو ہوئی ہیں پھر کسی ایک کو ہی درست کریں گے تو دوسرے غلط ہو جائیں گے میں کہتا ہوں ہاں غلط ہوں گے مگر گمراہ نہیں بلکہ اجتہادی غلطی پہ ہوں گے بلکہ ہم تو کوئی قبر سے بیٹا مانگنے لگ جاتا ہے اور اس پہ تاویلات بغیر کسی دلیل کے کرتا ہے تو ہم اسکی تاویلات کو قبول کر کے اسکو عذر دیتے ہیں اور اسکی اجتہادی غلطی سمجھتے ہیں تو پھر یہ تاویلات کیسے قبول نہیں کی جا سکتی ہیں۔
آپ نے یزید کے کفر کی تاویلات کرنے والوں کے دلائل پوچھے تو میں اس لئے نہیں بتا رہا تھا کہ میرے نزدیک وہ درست نہیں مگر نہ تو میں اور نہ ہی آپ یہ جرات کر سکتے ہیں کہ یہ جتنے امام ہیں جنہوں نے یہاں یزید کو کافر کہا ہے انکے پیچھے نماز پڑھنے والے اور خاص طور پہ عبدالحق محدث دہلوی سے اپنی سندیں بیان کرنے والوں کو ہم غلط کہیں۔ کیا کسی میں ایسی جرات ہے۔ جب نہیں تو ان اماموں کی کوئی پیروی کر لیتا ہے تو پھر یہ دوسرا فتوی کیسے آ جاتا ہے ہمیں جو بھی موقف رکھنا چاہئے سب کے لئے ایک ہی ہونا چاہئے یعنی یہ نہ ہو کہ تیرا کتا کتا اور میرا کتا ٹومی۔ پیارے بھائی بہت بہت معذرت چاہتا ہوں یہ آپ کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ تو میرے لئے بھی ہے کیونکہ میں بھی بعض دفعہ بھول کر ایسی غلطی کر دیتا ہوں لیکن ولم یصروا علی ما فعلوا وھم یعلمون کے تحت جب معلوم ہو جاتا ہے تو عمر ؓ کی طرح رجوع کر لیتا ہوں جیسے وفات نبیﷺ پہ کیا تھا، دیکھیں ابن تیمیہ نے مجموع الفتاوی میں لکھا ہے کہ امام احمد بن حنبل سے بیٹے نے یزید سے محبت کے بارے پوچھا تو کہا کہ جو اللہ اور آخرت پہ ایمان رکھتا ہو وہ کیسے یزید سے محبت کر سکتا ہے۔
ملا علی قاری نے اپنی کتاب شرح الشفا میں کہا ہے کہ لعنت کرنا جائز نہیں سوائے یزید یا ابن زیاد وغیرہ کے کیونکہ بعض علما نے ان پہ لعنت کو جائز کہا ہے اور امام احمد تو یزید کے کفر کے قائل تھے، احمد رضا خان بریلوی نے اپنے فتاوی میں لکھا ہے کہ امام احمد اسکے کفر کے قائل تھے، اسی طرح امام شہاب الدین قسطلانی اور ابن حجر الھیثمی اور عبد الحق محدث دہلوی، قاضی ثنا اللہ پانی پتی وغیرہ جیسوں نے اسکے کفر کا کہا ہے، پس میرا موقف صرف اور صرف یہ ہے کہ کوئی اگر یزید کی تکفیر کرتا ہے تو اس پہ گمراہی کا فتویٰ لگانا درست نہیں کیونکہ پھر بہت سے علما پہ یہ فتویٰ آئے گا اور پھر ہماری کئی سندیں مسئلہ بن جائیں گی۔

فضیلۃ الباحث ارشد حفظہ اللہ

ان بھائی کی گفتگو پر دکتور فیض صاحب، حافظ خضر حیات صاحب ضرور کچھ عرض کریں، اجتہادی خطاء اور صریح خطاء میں فرق ہے، اجتہادی خطاء بھی مجتھد سے ہو تو ایک اجر ہے، ہر کسی کو اجتہاد کرنے کی اجازت نہیں ہے، آپ نے جو امام احمد بن حنبل کی طرف بات منسوب کی کفر والی وہ کیوں پیش نہیں کرتے ہیں؟ یہ مجموعہ سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے اس لئیے بہتر نہیں ہے یہاں بات کرنا۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

شیخ محترم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
(1) نمبر ایک کا جواب اسی جگہ موجود ہے غور کریں مسئلہ تکفیر معین کب لگتا ہے اس پر غور کریں میرے الفاظ کا مطلب وہی ہے اس حدیث کے بارے میں کہ جو بلا دلیل شرعی و عدم قرائن کے کہتا ہے۔ کسی ایک قول پر یا بعض باتوں کی وجہ سے جو کفر اکبر کے درجہ پر نہیں ایسا سخت فتویٰ لگانا مرجوح ہے اور خطرناک بھی ہے۔ پھر کہتا ہوں میری باتیں میرے الفاظ یزید کے متعلق تھے ہی نہیں میں نے تو مطلقا بات کی مسئلہ تکفیر معین پر شیخ محترم اس پہ میں نے وہی لکھا تھا کہ کسی کو کافر کہنے پہ کفر کی وعید تب لوٹی ہے جب کوئی تاویل نہ ہو جیسا کہ بخاری نے اس پہ جو باب باندھا ہے اس میں لکھا کہ من کفر اخاہ بغیر تاویل اور اھل حدیث کہتے ہیں کہ بخاری خالی حدیث کی ہی نہیں بلکہ فقہ کی بھی کتاب ہے کیونکہ اسکے باب چننے میں امام بخاری نے اصول فقہ کو ہی مدنظر رکھا ہے اب یہاں تاویل وہی ہے جو کئی ہمارے مستند علما نے اختیار کی ہے جیسے ملا علی قاری، محدث عبدالحق دھلوی، قاضی ثنا اللہ پانی پتی وغیرہ۔ اب ان علما نے ایک قول پہ اعتماد کر کے کفر کا فتوی دیا یا کئی اقوال پہ اعتماد کر کے فتوی دیا یہ مجھے معلوم نہیں اور یہ میرا سوال بھی نہیں ہے میرا تو بار بار یہی سوال ہے کہ جو حکم ان پہ لگنا چاہئے وہی اس اوپر سوال والے خطیب پہ لگنا چاہئے جو انکی طرح تاویل کرتے ہوئے یزید کو کافر کہے یعنی کیا انکے پیچھے نماز ہو گی یا محدث دیلوی کی سند مانی جائے گی یا انکو گمراہ ہی سمجھا جائے گا کیونکہ جو تاویل انکے لئے درست ہے وہ کسی اھل حدیث مسجد کے خطیب کے لئے بھی درست ہو سکتی ہے اس پہ میں نے آپ کو سمجھانے کا کہا تھا مگر معذرت شیخ محترم کہ مجھے اپنی کم عقلی کی وجہ سے ابھی تک اسکی سمجھ نہیں آ سکی۔
شیخ آپ نے مندرجہ ذیل چار پوائنٹ پہلے لکھے تھے۔
(3): امام کا قول باسند صحیح پیش کریں جس میں تکفیر معین ہے یا ان کی کتاب سے پیش کریں۔
(4): امام أحمد سے کیا رجوع ثابت نہیں ہے؟
(5): کیا امام صاحب کی ائمہ متقدمین میں سے کسی نے موافقت کرتے ہوئے تکفیر معین کی تھی؟
(6): کیا امام صاحب کا یزید کی تکفیر معین کرنا ہمارے لیے حجت ہے؟
ان چاروں پہ جو میں نے اشکالات لکھے تو شیخ آپ نے اب یہ مزید وضاحت کی ہے کہ
(3): نمبر کا آپ نے کوئی حوالہ پیش نہیں کیا جو اصل چیز تھی۔
(4): اس کا جواب بھی آپ کے ذمہ ہے۔
(5): نمبر کا کوئی علمی و اصولی جواب نہیں دیا گیا ہے۔
(6): نمبر سے میں متفق نہیں ہوں۔
شیخ ان چاروں کو غیر متعلقہ سمجھ کر بہت تھوڑی بات لکھی تھی لیکن اب آپ کے کہنے پہ وضاحت سے لکھتا ہوں
شیخ یہ چاروں پوائنٹس میرے نزدیک یہ وجہ نزاع ہی نہیں تھے اور نہ آپ کے ہاں ہونا چاہئے تھے کیونکہ اگر آپ تاویل صرف اسکی قبول کرتے ہیں جس کے پاس با سند اور بالکل صحیح روایت ہو تو پھر اوپر والے علما کا کیا حکم ہو گا کہ جن کے پاس یزید کو کافر کہنے کے لئے کوئی با سند دلیل ہی نہیں ہے کیا محدث دیلوی کے پیچھے نماز جائز نہیں ہو گی؟ نہ اسکی سند درست ہو گی؟
شیخ آپ نے کہا کہ کسی امام کا تکفیر یزید کا قول ہمارے لئے کیسے حجت ہے تو محترم شیخ آپ کو بتا دوں کہ یہاں ہم سے نادانستہ دو پہلو گڈ مڈ ہو رہے ہیں۔
ایک پہلو یہ ہے کہ ہمارا عمل کس پہ ہو اور دوسرا پہلو یہ کہ ہمارا مخالف پہ فتوی کیسے ہو۔
پس پہلے پہلو کے لحاظ سے اھل حدیث کے ہاں یہ اصول ہے کہ جب علما کا کسی مسئلہ میں اختلاف ہو تو ان میں جس کا قول زیادہ راجح ہو اسکو اختیار کر لیا جائے گا پس میرے لئے یزید کی تکفیر کا قول راجح نہیں پس میرا عمل عدم تکفیر پہ ہے۔
لیکن دوسرا پہلو یہ ہے کہ پھر دوسرے تکفیر والوں پہ ہم فتوی کیسا لگائیں گے تو اس میں اصول یہ ہے کہ اگر انکے پاس کوئی تاویل ہے تو اسکو اجتہادی غلطی سمجھا جائے گا سمجھایا جا سکتا ہے لیکن گمراہ یا اسکے پیچھے نماز کا انکار کرنا کسی صورت درست نہیں یہ میرا موقف ہے آپ کا دوسرا ہو سکتا ہے۔
اسی لئے شیخ محترم اگر ان تینوں سوالوں کا آپ جواب چاہتے ہیں تو براہ کرم پہلے یہ بتائیں کہ اوپر والے علما جو بغیر با سند تاویل کے یزید کو کافر کہتے ہیں وہ گمراہ کہلائیں گے انکی سند اور انکے پیچھے نماز قبول نہیں ہو گی اگر آپ ایسا کہتے ہیں تو پھر شیخ میں بھی ضرور کوئی سند والی روایت تلاش کروں گا یا پھر شاید اپنے موقف سے رجوع کر لوں اور اگر آپ کہتے ہیں کہ نہیں وہ اوپر والے علما جو یزید کو کافر کہتے ہیں بے شک انکے پاس با سند دلیل نہیں لیکن ہم انکو گمراہ نہیں کہیں گے بلکہ اجتہادی غلطی پہ کہیں گے اور ہم خود یزید کی تکفیر نہیں کریں گے تو پھر یا شیخ مجھ سے سند مانگنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ میں خود تو یزید کو کافر نہیں کہتا صرف ان تاویلات کرنے والوں کو گمراہ نہیں کہتا بلکہ اجتہادی غلطی پہ کہتا ہوں شیخ واللہ آپ اگر کہیں یہ سمجھتے ہیں کہ میں مرزا جہلمی سے مرعوب ہوں تو میں آپ کو انکے خلاف اپنا لکھا ہوا ڈائیلاگ پرسنل میں بھیجتا ہوں میں تو جمعہ پہ اسکے خلاف بہت تنقید کرتا ہوں لیکن جو بات اسکی درست ہوتی ہے اسکا انکار نہیں کرتا کیونکہ یہی شریعت کا حکم ہے۔کہ ولا یجرمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا
جزاکم اللہ خیرا یا شیخ
شیخ محترم امام احمد کی بات کا اوپر کئی علما سے حوالہ پیش کیا ہے ہاں اسکی سند اگر آپ کو درست نہیں لگتی تو میرا یہی کہنا ہے کہ غیر درست سند کے باوجود یزید کو کافر کہنے پہ اگر ان علما بشمول محدث دہلوی پہ حرف نہیں آتا تو کسی اور پہ بھی نہیں آنا چاہئے کیونکہ میرے پاس تو بخاری کی دلیل ہے کہ من کفر اخاہ بغیر تاویل تو جو تاویل محدث دیلوی کے لئے درست ہے وہ کسی اور کے لئے کیسے درست نہیں ہو سکتی۔
باقی شخ محترم اجتہاد تو ہر کوئی نہیں کر رہا عامی تو کسی مجتہد کی بات پہ عمل کر رہا ہے اگر عامی مجتہد کی بات پہ عمل بھی نہیں کر سکتا اور خود بھی اجتہاد نہیں کر سکتا تو درمیان کی کوئی صورت مجھے سمجھ نہیں آتی۔
باقی شیخ یہ سوال ہی ہوا تھا اور اس پہ کسی نے یزید کو کافر کہنے والے کو گمراہ کہا تھا اور میں نے کہا تھا کہ میرے نزدیک بھی وہ غلط ہے لیکن گمراہ نہیں ہے اب اگر کوئی اس گروپ میں میرے موقف پہ چپ رہتا تو میں مزید بات بالکل نہ کرتا لیکن شیخ محترم اللہ آپ کو جزائے خیر دے کسی نے اگر میری بت پہ اعتراض کیا تو مجھے یا تو رجوع کرنا چاہئے یا پھر اسکی دلیل دینی چاہئے ورنہ تو لوگ یہی کہیں گے کہ یہ بغیر دلیل کے ہی باتیں کرتا ہے اور کسی داعی کے لئے یہ الزام بہت بڑا ہے۔
بہت بہت معذرت یا شیخ آپ کو اگر درست نہ لگے۔
اگر شیخ خضر بھائی یا شیخ فیض بھائی یہ کہیں کہ میں نے کوئی غلطی کی ہے یا گروپ کے اصول کے خلاف کیا ہے تو مجھے بتا دیں باقی اپنے موقف کو بیان کرنا میرا حق تھا شاید۔ اس پہ کوئی اعتراض کرے تو اسکو سمجھانا یا پھر غلطی دیکھنے کے بعد رجوع کرنا بھی میرا شیوہ ہے۔ان شاللہ

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ

حیرت یہ ہے کہ یزید کو کافر ثابت کرکے ملے گا کیا، لوگوں کو ایسے مصلح کی ضرورت ہے جو ان کے اعمال و افکار کی اصلاح کرے نہ کہ غیر ضروری مسائل میں الجھا رھے، لوگ بے دین ہو رہے ہیں، انکار حدیث کا فتنہ روز بہ روز بڑھ رہا ہے، الحاد پھیل رہا ہے، اس کے علاوہ بنیادی مسائل سے نابلد ہیں، پورے کے پورے خاندان ایسے میں یزید یا اس جیسے دیگر مسائل میں گھنٹوں مغز ماری کسی فکر مند عالم کو زیب دیتی ہے، اللہ ہماری کاوشوں کی سمت درست کر دے۔

فضیلۃ الباحث حافظ علی معاذ حفظہ اللہ

جی محترم بھائی یہ بات بالکل درست ہے ہمیں خواہ مخواہ یزید کے کفر کی بات نہیں کرنی چاہئے اور ایسا کرنے والے کو سمجھانا چاہئے۔
بلکہ ہمیں یزید کو خلیفۃ المسلمین یا رحمہ اللہ کہنے والوں کو بھی کہنا چاہئے کہ ایسا بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے کیا ہمارا دعا کرنا لازم تھوڑی ہے اس اختلاف کو نہ ہی چھیڑیں ورنہ مخالف پھر اسکے کفر کے فتوے لگانا شروع کر دیتا ہے۔

فضیلۃ الباحث ارشد حفظہ اللہ

اس کا مطلب ہے آپ کے پاس امام احمد بن حنبل کا تکفیر معین والا قول موجود نہیں ہے، کسی کے سہارے جینا چھوڑ دیں، ایک عظیم امام کی طرف اتنا بڑا قول منسوب کر دینا اور پھر اس کی اصل پیش نہ کرنا کتنے افسوس کی بات ہے، جو لوگ کسی پر معین تکفیر کا حکم لگاتے ہیں اور ان کے پاس کافی شافی دلائل و قرائن موجود نہیں نہ ہی اس شخص میں کفر اکبر والی کوئی بات ہے تو سوچیں اس پر بات کرنے والا کیا جواب دے گا آخرت میں آپ بار بار ایک ہی بات دہرا رہے ہیں، کسی بھی مسلمان کی تکفیر معین کرنا وہ بھی اتمام حجت ادلہ و قرائن کے پورے ہونے بغیر اور اس سے موانع موجود ہونے کے ساتھ صرف ہلاکت ہی لاتا ہے، باقی میں کسی کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

شیخ یہی تو میں کہ رہا ہوں کہ جس دن آپ نے ان سارے یزید کی تکفیر کرنے والے اوپر بتائے گئے علما پہ بھی وہی حکم لگایا جو اس خطیب پہ لگا رہے ہیں کہ اسکے پیچھے نماز بھی نہیں پڑھنی اسکو گمراہ سمجھنا ہے تو پھر اس دن سے میں آپ کی یہ تکفیر معین والی بات مان لوں گا ورنہ بہت بہت بہت بہت معذرت کے ساتھ میں معافی مانگتے ہوئے کہوں گا کہ یہ ایک رخی نہیں ہے۔
میرا سوال یہی تو ہے کہ آپ کہیں کہ یہ جو ملا علی قاری یا شیخ عبدالحق یا اما سیوطی یا ابن جوزی جیسے علما یزید کے بارے کہتے ہیں وہ سارے علما گمراہ ہیں اگر وہ گمراہ نہیں تو ان جیسا موقف رکھنے والا کیسے گمراہ ہو سکتا ہے ایسی سادہ اور عام فہم بات مجھے سمجھ کیوں نہیں آ رہی یہ کوئی الجبرا کا سوال تو نہیں ہے یہ تو سادہ دو اور دو چار کا سوال ہے واللہ شیخ مجھے سمجھ نہیں آ رہی میں کیا کروں کہ اتنا سادہ سوال کہ اتنے بڑے علما ایک تاویل کی وجہ سے یزید کو کافر کہیں تو وہ معذور ہو گئے لیکن ان کی اس تاویل کو استعمال کرتے ہوئے کوئی اور ایسا کرے تو پھر ان کا حکم بدل دیا جائے یعنی یہ دو اصول کسی مسلمان کے ہوں سمجھ نہیں آ رہی ہے۔
آپ نے کہا کہ تکفیر معین ہلاکت ہے بالکل ہے لیکن امام بخاری جیسے قفیہ کے ہاں تب ہلاکت ہے جب کوئی تاویل نہ ہو آپ کے لئے اگر ہر صورت ہلاکت ہے تو کیا آپ کے ہاں امام سیوطی ابن جوزی محدث دیلوی ملا علی قاری ہلاک ہو گئے اگر آپ ایسا ہی کہتے ہیں تو میں آپ کو درست سمجھ سکتا ہوں۔

فضیلۃ الباحث ارشد حفظہ اللہ

آپ پہلے مسئلہ تکفیر ہر اطمینان سے پڑھیں اور سلف صالحین کیا اس بارے کیا منہج ہے، جو بات آپ بار بار دہرا رہے ہیں نماز نہ پڑھنے والی وہ میں نے کہاں لکھی اور کہی ہے، خیر القرون وبعد کے کبار ائمہ محدثین سے کسی نے ان کی تکفیر کی ہے تو پیش کریں، تکفیر کے اصول وضوابط ہیں پہلے وہ دیکھ،پڑھ لیں، یہ بعض حوالے آپ کیوں پیش کر رہے ہیں، میں نے شروع والے میسج سے یزید کی بات نہیں کی تھی بلکہ مطلقا تکفیر معین پر بات کی تھی، مگر آپ ہر بار یزید کا نام لے کر کیا کہنا چاہتے ہیں؟ امام بخاری کے باب کا یہ معنی ہے کہ جس کی مرضی تکفیر کرتے جاؤ؟ آپ کو کہا تھا بس کریں اب گفتگو نہیں ہو گی یہ مجموعہ اس لئے نہیں بنا ہے مگر آپ باز نہیں آ رہے ہیں۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

پہلی بات شیخ محترم میں نے مکمل اطمینان سے تکفیر والا مسئلہ پڑھا ہے اور اوپر میری کسی بھی کمنٹ میں آپ کو اسکے خلاف کچھ نظر آیا ھو تو کہا تھا دلیل سے بتا دیں۔
دوسری یہ بات شروع ہی یزید سے ہوئی تھی اور کسی نے یزید کا کافر کہنے والے کا مسئلہ پوچھا تھا کہ اسکے پیچھے نماز ہوتی ہے یا نہیں اسی لئے میں نے تو یزید کے بارے بات کرنی تھی باقی کی تو بات ہی نہیں ہو رہی تھی، تیسری امام بخاری کی بات کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ بغیر تاویل کے ہر کسی کی تاویل کرتے جاو بلکہ انہوں نے تاویل کا لکھا ہے اسکے بغیر نہیں کر سکتے ورنہ تکفیر لوٹ آئے گی اور شیخ محترم اب بس کوئی بات نہیں ہو گی تو شیخ اس سوال پہ میں نے تو اپنا موقف پیش کیا تھا اختلاف تو آپ نے شروع کیا تھا میرے کمنٹ کو لے کر۔ پس آپ دوبارہ دیکھ لیں میرا کوئی ایک کمنٹ آپ دکھا دیں جو آپ کے کسی اعتراض کا جواب نہ ہو اگر آپ نے میری کسی بات پہ کوئی اعتراض ہی نہ کیا ہو تو میں کیسے فضول میں آگے بات کر سکتا ہوں۔
آپ سے بہت بہت معذرت کہ آپ کو تکلیف دی۔ شیخ محترم میرا اپنا موقف ہے آپ کا اپنا موقف ہے آپ کو میں نہیں کہتا کہ میری بات کو لازم مانیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی کی بات کو بھی ماننا لازم نہیں اب ہم اس کو ادھر ہی ختم کرتے ہیں جس نے کوئی سوال کرنا ہو وہ آپ سے پرسنل میں یا مجھ سے پرسنل میں پوچھ سکتا ہے اللہ ہمارے درمیان اختلاف کو ختم کرے اور آپس میں محبت کرنے کی توفیق دے۔
آمین جزاکم اللہ خیرا

فضیلۃ الباحث ارشد حفظہ اللہ

میری یہ رائے ہے کہ آپ کی جو فکر ہے، وہ آپ رکھیں لیکن یہ بحث کو طول نہ دیں، باقی اس کو بحث در بحث نہ بنائیں۔ شیخ ابو انس طیبی حفظہ اللہ بڑے ہی خوبصورت انداز میں ایک ہی بات کر رہے ہیں، معلوم نہیں آپ ان سے کیا کہلوانا چاہ رہے ہیں، وہ بات کریں گے تو آپ خاموش رہیں گے۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

شیخ محترم آپ کی بات تو درست ہے کہ یہ صرف سوال و جواب کا گروپ ہے اس میں ہر کوئی اپنا موقف لکھے اور دوسرے کے موقف پہ اعتراض نہ کرے۔
لیکن شیخ آپ نے اسکی کوئی تحقیق نہیں کی کہ یہ دوسرے پہ اعتراض کرنے والی غلطی کس نے کی ہے واللہ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہو گا بلکہ آپ نے اتنی لمبی بحثیں پڑھی ہی نہیں ہوں گی۔
کیونکہ میں نے تو کوئی بھی ایک کمنٹ ایسا نہیں کیا جو کہ شیخ ابو انس حفظہ اللہ کے کسی اعتراض پر اپنے موقف کا جواب نہ ہو اور یہ تو ہر عقل سلیم رکھنے والا سمجھتا ہے کہ اگر دوسرا آپ کو کہے کہ آپ غلط ہیں تو اسکے صرف اور صرف دو جواب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ آپ رجوع کر لیں اور آپ کو اپنی غلطی سمجھ آ جائے اور دوسرا یہ کہ آپ اپنا جواب اس پہ دیں تیسری بات تو کوئی عقل سلیم رکھنے والا سوچ نہیں سکتا پس میں کیا کرتا جب بھی وہ کوئی اعتراض کرتے تھے تو مجھے وہ سمجھ نہیں آتا تھا اب رجوع کرنا ممکن نہیں تھا تو جواب دینا مجبوری تھی، اب اس میں میں سب سے یہی التجا کرتا ہوں کہ وہ بتائیں کہ میرا کیا قصور ہے، اور اگر کہتے ہیں تو میں بغیر قصور ہی معافی مانگ لیتا ہوں سب سے شیخ عبداللہ بہاولپوری کہتے تھے، اپنے بھی ہیں خفا مجھ سے بیگانے بھی نا خوش۔ میں زہر ہلاہل کو کبھی کہ نہ سکا قند

فضیلۃ الباحث ارشد حفظہ اللہ