سوال (5131)

بعض حضرات کی طرف سے یزید کے دفاع کے طور پر کہا جاتا ہے کہ یزید پر تنقید سے صحابہ کرام پر طعن کا دروازہ کھلتا ہے؟ اس بات کی کیا حقیقت ہے؟

جواب

احمد بن حنبل، ابن تیمیہ اور ابن عثیمین تک اہل سنت کے جلیل القدر ائمہ کرام اور علمائے عظام یزید پر تنقید کرتے ہیں، لیکن صحابہ کرام کے بارے میں ان کا موقف اہل سنت والجماعت والا ہی ہے، لہذا یہ غلط نظریہ ہے کہ یزید پر تنقید کرنے سے صحابہ کرام پر تنقید لازم آتی ہے۔
گمراہ وہ ہے جو باطل کا قائل یا فاعل ہے، کسی درست بات کے باطل نتائج نکال کر کسی کو گمراہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثلا کوئی شخص حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید کرے تو وہ بدعتی اور باطل پرست ہے، لیکن کوئی شخص یزید پر تنقید کرے اور اسے کہا جائے کہ تم معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید کا دروازہ کھول رہے ہو تو اس وجہ سے کوئی شخص باطل پرست نہیں کہلائے گا۔ بالفاظِ دیگر ناقدِ یزید کو ناقدِ صحابہ قرار دینا یہ غلو ہے۔
بالکل اسی طرح اہل بیت پر تنقید کرنا ناصبیت ہے، لیکن اگر کوئی رافضی کہے کہ واقعہ کربلا کی من گھڑت داستانوں کی سنی تحقیق سے اہل بیت پر تنقید کا دروازہ کھلتا ہے تو اس وہم اور خدشے سے کسی کو ناصبی نہیں کہا جا سکتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ حکم کی بنیاد ’قول‘ پر ہوتی ہے، اس کے لازم/لوازم پر نہیں، ہاں البتہ اگر کوئی شخص لوازم کا اقرار کرے تو پھر وہ لازم القول نہیں بلکہ وہ قول ہی ہو گا۔
اہل سنت اور اہل حدیث کے مابین بہت سارے اختلافات کی نوعیت اسی قسم کی ہے کہ ہر فریق اپنے موقف کے اثبات اور اس کی تائید میں ’اضافی احتیاط‘ کرنا چاہتا ہے، جس سے غلو اور افراط و تفریط جنم لیتا ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دفاع یزید کے دفاع کا محتاج نہیں ہے؛یزید کے دفاع کے بغیر بھی صحابہ کرام کا دفاع ممکن ہے۔

فضیلۃ الشیخ ارشد کمال حفظہ اللہ