یہ دنیا فانی ہے
یہ دنیا فانی ہے۔ ہر انسان نے مرنا ہے۔ اور مرنے کے بعد اس کا ٹھکانہ قبر ہے قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے۔ اور امتحان گاہ ہے۔ انسان دنیوی زندگی سے عالم برزخ کی زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ قبر میں جانے کے بعد دنیا میں کیے گئے اعمال کی باز پرس اور سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ جس کی بنیاد پر جزا و سزا کا اطلاق ہوتا ہے۔ نیک کو جنتی نعمتیں، قبر کی فراخی اور
“نم کنومۃ العروس” ۔۔دلہن کی طرح میٹھی نیند سو جا۔کی خوشخبری اور برے شخص کے لیے دوزخ کا عذاب ہے۔ عذاب قبر برحق ہے مگر انسانوں اور جنوں سے اسے مخفی رکھا گیا ہے اس میں بھی اللہ تعالی کی طرف سے حکمت ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:
“لولا ان لا تدافنوا لدعوت الله ان يسمعكم من عذاب القبر”
اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ آپ مردوں کو دفنانا چھوڑ دو گے تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ وہ آپ کو عذاب قبر سنوا دے. (صحیح مسلم:2868۔ عذابِ قبر:51)۔
فاضل مصنف اسی کتاب کے صفحہ 14 پر لکھتے ہیں:
” عذاب قبر کے حق ہونے پر اہل سنت کا اجماع اور اتفاق ہے جس نے اہل سنت کا اجماعی اور اتفاقی فہم نظر انداز کیا وہ ذلیل اور گمراہ ہے اس کی رائے بدعت اور گمراہی ہے”.
عذاب قبر کے بارے میں محدثین کے فہم پر چلنے کی بجائے اپنی تاویلات کے باعث لوگ کئی گروہوں میں بٹ گئے۔
*عذاب قبر کا انکار کرنے والے۔
*عذاب قبر کو ماننے والے۔۔۔ مگر قبر کی تعیین یعنی قبر زمینی اور قبر برزخی کا تصور اور عذاب کس قبر میں ہوتا ہے، اس میں مختلف فیہ لوگ۔
*قبر کی زندگی کو دنیاوی زندگی پر قیاس کرنے والے، مردے کا سننا، بولنا، گھر آنا جانا، قبر پر جانے والے کو پہچاننا اور مراقبہ کرنے پر ہم کلام ہونا وغیرہ۔۔
جبکہ حق بات صرف یہ ہے کہ ہم قرآن و حدیث میں بیان کردہ تعلیم کو تسلیم کر لیں۔ جیسا کہ مذکورہ کتاب میں امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ کا قول منقول ہے:
” ہماری گزارشات کا حاصل یہ ہے کہ ہم صحابہ و تابعین، اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معنی جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں عقل میں آئے یا نہ آئے حدیث سے عقلیں نہیں لڑاتے یہی مطلوب شریعت ہے”
( الاعتصام 2/850، عذاب قبر صفحہ: 15)
مذکورہ کتاب کے مصنف علامہ غلام مصطفٰی ظہیر محدث امن پوری حفظہ اللہ اہل علم کے ہاں مسلمہ شخصیت ہیں۔ ان کا اسلوب تحریر یہ ہے کہ:
♦️ بے جا طوالت اور تمہیدی گفتگو میں الجھے بغیر سیدھا اپنے مضمون پر جامع گفتگو کرتے ہیں.
♦️ قرآن و حدیث کے دلائل اور اس کی توضیح کے لیے آئمہ محدثین کے اقوال بکثرت نقل کرتے ہیں۔
♦️ انداز تحریر مناظرانہ کی بجائے ناصحانہ ہوتا ہے.
♦️ اگر کسی مخالف کا رد کرنا مقصود ہو تو نام لیے بغیر اپنے موقف پر دلائل اور فریق مخالف کے دلائل پر محاکمہ نقل کرتے ہیں.
مثلاً صفحہ:147 پر سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی یہ وصیت منقول ہے:
” میری قبر پر اتنی دیر ہے ٹھہرنا جتنی دیر میں اونٹ کو ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے یوں میں آپ کی (دعاؤں کی) بدولت وحشت سے بچ جاؤں گا اور مجھے اپنے رب کے بھیجے ہوئے فرشتوں کے سوالات کے جوابات یاد آ جائیں گے۔۔۔۔ (صحیح مسلم 121)
“اس اثر سے معلوم ہوا کہ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ قبر کے سوال و جواب کے قائل تھے۔ نیز اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ سوال و جواب اور عذاب و جزا زمینی قبر میں نہیں ہوتی بلکہ یہ سب برزخی قبر میں ہوتا ہے۔
برزخی قبر کا کوئی وجود نہیں کتاب و سنت میں اس کا کہیں ذکر نہیں اسلاف میں کوئی بھی برزخی قبر کا قائل نہیں اس کی بنیاد محض باطل خیالات پر ہے”
📚 زیر نظر کتاب 298 صفحات پر مشتمل ہے جس میں قرانی آیات :19، احادیث: 71, اقوال صحابہ:5,
اقوال تابعین 300 اور 70 سے زائد آئمہ اہل علم کے اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔
آخر میں بعض شبہات اور ان کا ازالہ کہ عنوان سے عذاب قبر سے متعلق وارد شبہات کہ عنوان کے تحت بعض شبہات کا علمی رد کیا گیا ہے۔
فاضل مصنف حفظہ اللہ نے کتاب کا اختتام ان کلمات سے کیا ہے کہ: “ہماری کوشش رہی ہے کہ اس کتاب میں صحیح احادیث اور آثار جمع کیے جائیں اور آئمہ محدثین کی تشریحات اور آئمہ اہل سنت والجماعت کے اقوال نقل کیے جائیں۔ بسا اوقات بعض متاخرین کی عقلی دلیلیں بھی لے آئے۔ شریعت کے احکام و مسائل وحی پر موقوف ہیں، عقل پر نہیں۔ عقل اس لیے عطا ہوئی ہے کہ نصوص کو تسلیم کیا جائے نہ کہ شریعت کا رد کرنے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے مطابق عقائد و اعمال میں شریعت پر اکتفا کیا جائے اور اسلاف امت کے عمل پر بھروسہ کیا جائے کیونکہ اسلاف امت بجا طور پر دین کا فہم رکھتے تھے۔ اس مطابق انہوں نے اسلامی عقائد وضع کیے اور اپنی کتابوں میں درج کیے۔ آئمہ اہل سنت میں کوئی فرد و بشر عذاب قبر کا منکر نہیں بلکہ آئمہ اہل سنت والجماعت نے عذاب قبر کے اس بات پر اجماع کیا ہے”
اپنے موضوع سے متعلقہ تمام مضامین کا احاطہ کرتی ہوئی یہ بہترین تصنیف پڑھنے کے لائق ہے امید ہے کہ اس کے اس کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے والے شخص کو عذاب قبر کے متعلق کسی شک و شبہ میں ڈالنے والے کو کامیابی نہ ہوگی۔ ان شاءاللہ۔
وما توفيقي الا بالله عليه توكلت واليه انيب.
عبدالرحمٰن سعیدی