* یہ عبرت کی جاہ ہے تماشا نہیں ہے *
تحریر:آصف اقبال جنجوعہ
حالیہ دنوں پاکستان کی ایک مشہور ایکٹر حمیرا اصغر کی موت کے حوالے سے خبریں سوشل میڈیا پہ گردش کررہی ہیں، موجود تفصیلات کے مطابق بتایا جارہا ہے کہ حمیرا اصغر نے مئی 2024 سے اپنے اپارٹمنٹ کا کرایہ ادا کرنا بند کردیا تھا،جس کی وجہ سے اس پہ قانونی کاروائی کی جارہی تھا اور مئی 2024 سے اب تک اس ایکٹر کا کسی کاروائی میں پیش ناہونے کی وجہ سے جب پولیس اس کے گھر پہنچی تو وہاں اس ایکٹر کی لاش پائی گی۔۔۔
میڈیکل رپورٹ کے مطابق یہ لاش 9ماہ پرانی ہے یعنی تقریبا اس ایکٹر کی موت اکتوبر کے پہلے ہفتے ہوچکی تھی۔۔۔
آخر کیا وجہ ہے ایک مشہور ٹی وی ایکٹر اتنا عرصہ غائب رہی، اس نے آخری کال بھی ستمبر 2024 میں کی تھے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پہ بھی آخری پوسٹ ستمبر 2024 ہی کی،لیکن اس کے باوجود اس کے ساتھ کام کرنے والے،اس کی فیلڈ کے لوگ اور اس کے سوشل میڈیا پہ لاکھوں چاہنے والوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا کہ جس نے اتنا عرصہ اس ایکٹر کے منظرعام سے غائب ہونے کو محسوس کیا ہو۔۔۔
جی ہاں! یہ ہے اس دنیا کی بیوفائی یہ ہے اس چہل پہل کا دھوکہ،یہ ہے لاکھوں فالور ہونے کا اپنے آپ کو جھوٹی تسلیاں دینا کی اصل حقیقت،یہ ہے دنیا میں بڑے بڑے تعلقات کا دعوی کرنے والوں کی حقیقت۔۔۔
جب یہ ایکٹر ڈرامے کررہی تھی ہزاروں لوگوں اس کے چاہنے والے تھے لاکھوں سوشل میڈیا فالور تھے،بڑے بڑے تعلقات تھے لیکن جب اسی دنیا میں ہاں جی اسی دنیا میں ایک مشہور شخصیت 9 ماہ تک غائب رہی تو کسی نے یاد تک نہیں کیا،کسی نے اس کے غائب ہونے کو محسوس تک نہیں کیا۔
بس یہی ہے اس دنیا کی حقیقت۔۔۔
اس دنیا کے بنانے والے نے تو پہلے ہی بتادیا تھا کہ یہ دنیا دھوکے کا سامان ہے،
وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ۔
لیکن ہم انسان ہیں کہ اسی دھوکے کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔سوشل میڈیا پہ زیادہ فالور ہونے کا گھمنڈ، بڑے بڑے لوگوں سے تعلقات ہونے کا گھمنڈ لیکن یہ سب دھوکہ ہے۔۔۔
ایک ایسی لڑکی جس کے لاکھوں میں فالور تھے ہزاروں چاہنے والے تھے،لیکن 9 ماہ اسی دنیا میں غائب ہونے کے باوجود کسی نے یاد تک نہیں کیا۔تو سوچیں جب ہم اس دنیا سے چلیں جائیں گے تب کون یاد کرے گا؟
کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ میرے بغیر تو کچھ ہوتا ہی نہیں ہے میرے بغیر تو فلاں کام نہیں ہوتا میرے بغیر تو دنیا رک جائے گی،
اگر آپ بھی ایسا سوچتے ہیں تو یقین کریں، واقعی آپ کے مرنے کے ساتھ ایک دنیا مرے گی، ایک دنیا رک جائے گی، ایک قیامت برپا ہو گی۔ لیکن وہ “دنیا” باہر کی دنیا نہیں ہو گی بلکہ وہ آپ کی اپنی دنیا ہو گی۔ ہر انسان اپنے اندر ایک “دنیا” ہے، اس لئے ہر انسان کے مرنے کے ساتھ ایک “دنیا” مرتی ہے۔ اس کے علاوہ مرنے والے سے محبت کرنے والے لوگ تھوڑے بہت متاثر ہوتے ہیں اور انہیں اس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن وقت بہت زبردست مرہم ہے۔
آہستہ آہستہ وہ بہت ساری کمیاں دور کر دیتا ہے اور بہت جلد دنیا واپس اپنے کام میں مصروف ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی سوچے کہ اس کے مرنے کے ساتھ باہر کی دنیا بھی ایک دفعہ رک جائے گی یا دنیا کو لمبے عرصے کے لئے کوئی فرق پڑے گا تو یقین کریں ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ اس دنیا کو کسی کے مرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ کسی کے اچھے یا برے کام سے مرنے کے بعد بھی فرق پڑتا ہے۔ خیر یہاں ہر لمحے انسان پیدا ہو رہا ہے اور مر بھی رہا ہے۔ یہ دنیا یونہی روز اول سے چل رہی ہے
اور قیامت تک چلتی رہے گی۔ بلکہ میرے خیال میں جب اس دنیا میں کسی انسان کی ضرورت باقی نہیں رہتی تو تبھی وہ مرتا ہے۔ ہر بندے کی دنیا میں رہنے کی ایک مدت ہے اور اسی مدت کے دوران ہی دنیا کو اس کی ضرورت ہے۔ اِدھر ضرورت اور مدت ختم ہوتی ہے تو اُدھر انسان ختم ہو جاتا ہے۔ اس دنیا میں اگر کچھ زندہ رہتا ہے تو وہ انسان کا کام ہے، ورنہ یہاں تو بڑے بڑے تیس مار خاں کو بھی موت نے آ گھیرا۔ بقول شاعر
دارا اور سکندر جیسے شاہِ عالی شان
لاکھوں من مٹی میں سو گئے بڑے بڑے سلطان
تیری کیا اوقات ہے بندے کچھ بھی نہیں ہے تو
اس لیے اس دنیا کے دھوکے سے بچ جائیں،اللہ سے جڑ جائیں،اور ایسی زندگی گزاریں کے آپ کے مرنے کے بعد بھی آپ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں۔