یہ لوگ آپس میں کیسے رحم دل تھے

صحابہ کرام کفار پر سخت اور آپس میں انتہائی رحمدل تھے، ان کی باہمی محبت کی مثال ملنا آج کل محال ہے، وہ ایک دوسرے پر جانیں قربان کر دیتے تھے، ان کی محبت، الفت اور شفقت نے ایسا آئینہ دیکھایا ہے کہ آج تک کتب ان کی مثالوں سے پر ہیں، لیکن روافض نے اپنے ناپاک عزائم کو اس طرح رنگ دیا ہے کہ لوگوں میں اس بات کی ترویج کی ہے کہ صحابہ کرام کی آپس میں دشمنیاں تھی، وہ ایک دوسرے قتل کرنے پر تلے تھے، ایک دوسرے کو دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے، نعوذ باللہ، روافض نے کبھی بنو امیہ اور بنو ہاشم میں تفریق کر کے بنو امیہ کو کم دیکھایا ہے، اس طرح کی کئی باتیں انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھی ہیں، اور برسر عام بیان کی ہیں، تاکہ لوگ اس عظیم جماعت کے افراد سے متنفر ہو جائیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی آپس کی محبت اور رحمدلی دیکھ کر تاقیامت قرآن میں ان کی عملی تصویر کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ‌ ؕ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡۖ” [الفتح: 29]

«محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں»
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“وَاذۡكُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ اِذۡ كُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَ لَّفَ بَيۡنَ قُلُوۡبِكُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِهٖۤ اِخۡوَانًا” [سورۃ آل عمران: 103]

«اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب تم دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے»
میں صحابہ کرام کی آپس کی محبت کی چند مثالیں ذکر کرتا ہوں۔
(1) “محبت و شفقت کا پیغام: اخوت اسلامی”:
سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

‏‏‏‏‏‏”لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، ‏‏‏‏‏‏آخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنِي وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ سَعْدُ بْنُ الرَّبِيعِ:‏‏‏‏ إِنِّي أَكْثَرُ الْأَنْصَارِ مَالًا، ‏‏‏‏‏‏فَأَقْسِمُ لَكَ نِصْفَ مَالِي، ‏‏‏‏‏‏وَانْظُرْ أَيَّ زَوْجَتَيَّ هَوِيتَ، ‏‏‏‏‏‏نَزَلْتُ لَكَ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا حَلَّتْ تَزَوَّجْتَهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ لَا حَاجَةَ لِي فِي ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏هَلْ مِنْ سُوقٍ فِيهِ تِجَارَةٌ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ سُوقُ قَيْنُقَاعٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَغَدَا إِلَيْهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى بِأَقِطٍ وَسَمْنٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ تَابَعَ الْغُدُوَّ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا لَبِثَ أَنْ جَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَلَيْهِ أَثَرُ صُفْرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ تَزَوَّجْتَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَنْ قَالَ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ كَمْ سُقْتَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ زِنَةَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ نَوَاةً مِنْ ذَهَبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ” [صحیح البخاری: 2048]

«جب ہم مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور سعد بن ربیع انصاری کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا۔ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں انصار کے سب سے زیادہ مالدار لوگوں میں سے ہوں۔ اس لیے اپنا آدھا مال میں آپ کو دیتا ہوں اور آپ خود دیکھ لیں کہ میری دو بیویوں میں سے آپ کو کون زیادہ پسند ہے، میں آپ کے لیے انہیں اپنے سے الگ کر دوں گا یعنی طلاق دے دوں گا، جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو آپ ان سے نکاح کرلیں، بیان کیا کہ اس پر عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ نے فرمایا، مجھے ان کی ضرورت نہیں ، کیا یہاں کوئی بازار ہے جہاں کاروبار ہوتا ہو ؟ سعد رضی اللہ عنہ نے سوق قینقاع کا نام لیا۔ بیان کیا کہ جب صبح ہوئی تو عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ پنیر اور گھی لائے، راوی نے بیان کیا کہ پھر وہ تجارت کے لیے بازار آنے جانے لگے، کچھ دنوں کے بعد ایک دن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو زرد رنگ کا نشان کپڑے یا جسم پر تھا۔ رسول اللہ نے دریافت فرمایا کیا تم نے شادی کرلی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کس سے؟ بولے کہ ایک انصاری خاتون سے۔ دریافت فرمایا اور مہر کتنا دیا ہے؟ عرض کیا کہ ایک گٹھلی برابر سونا دیا ہے یا (یہ کہا کہ) سونے کی ایک گٹھلی دی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اچھا تو ولیمہ کر خواہ ایک بکری ہی کا ہو»

(2) “دو عظیم ہستیاں، ایک مسکراہٹ”:
سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“رَأَيْتُ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَحَمَلَ الْحَسَنَ وَهُوَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ بِأَبِي شَبِيهٌ بِالنَّبِيِّ،‏‏‏‏ لَيْسَ شَبِيهٌ بِعَلِيٍّ،‏‏‏‏ وَعَلِيٌّ يَضْحَكُ” [صحيح البخاري: 3750]

«میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ حسن رضی اللہ عنہ کو اٹھائے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں: میرے باپ ان پر فدا ہوں، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ ہیں، علی سے نہیں اور علی رضی اللہ عنہ مسکرا رہے تھے»

(3) “فاروقی کردار کی تمنا: سیدنا علی کی زبان سے اعترافِ عظمت”:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“وُضِعَ عُمَرُ عَلَى سَرِيرِهِ فَتَكَنَّفَهُ النَّاسُ يَدْعُونَ وَيُصَلُّونَ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ وَأَنَا فِيهِمْ فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَجُلٌ آخِذٌ مَنْكِبِي، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَتَرَحَّمَ عَلَى عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ مَا خَلَّفْتَ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَى اللَّهَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ مِنْكَ،‏‏‏‏ وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ أَنْ يَجْعَلَكَ اللَّهُ مَعَ صَاحِبَيْكَ وَحَسِبْتُ إِنِّي كُنْتُ كَثِيرًا أَسْمَعُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ ذَهَبْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ،‏‏‏‏ وَعُمَرُ وَدَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ،‏‏‏‏ وَعُمَرُ وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ،‏‏‏‏ وَعُمَرُ” [صحيح البخاري: 3685]

«جب عمر رضی اللہ عنہ کو شہادت کے بعد ان کی چارپائی پر رکھا گیا تو تمام لوگوں نے نعش مبارک کو گھیر لیا اور ان کے لیے اللہ سے دعا اور مغفرت طلب کرنے لگے، نعش ابھی اٹھائی نہیں گئی تھی، میں بھی وہیں موجود تھا۔ اسی حالت میں اچانک ایک صاحب نے میرا شانہ پکڑ لیا، میں نے دیکھا تو وہ علی رضی اللہ عنہ تھے، پھر انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعا رحمت کی اور ان کی نعش کو مخاطب کر کے کہا: آپ نے اپنے بعد کسی بھی شخص کو نہیں چھوڑا کہ جسے دیکھ کر مجھے یہ تمنا ہوتی کہ اس کے عمل جیسا عمل کرتے ہوئے میں اللہ سے جا ملوں اور اللہ کی قسم! مجھے تو پہلے سے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا۔ میرا یہ یقین اس وجہ سے تھا کہ میں نے اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنے تھے کہ میں، ابوبکر اور عمر گئے، میں، ابوبکر اور عمر داخل ہوئے۔ میں ابوبکر اور عمر باہر آئے»

(4) “عمر کی زبانی ابوبکر کا اعترافِ امامت”:
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“كَانَ عُمَرُ يَقُولُ:‏‏‏‏ أَبُو بَكْرٍ سَيِّدُنَا وَأَعْتَقَ سَيِّدَنَا يَعْنِي:‏‏‏‏ بِلَالًا” [صحيح البخاري: 3754]

«سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمارے سردار ہیں اور ہمارے سردار کو انہوں نے آزاد کیا ہے، ان کی مراد بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے تھی»

(5) “انصار کی سخاوت: مہاجرین کے لیے باغات کی پیشکش”:
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انصار نے کہا ہے کہ:

“اقْسِمْ بَيْنَنَا وَ بَيْنَهُمُ النَّخْلَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَكْفُونَا الْمَئُونَةَ وَتشْرِكُونَا فِي التَّمْرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا”[صحيح البخاري: 3782]

«یا رسول اللہ! کھجور کے باغات ہمارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم فرما دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں کروں گا، اس پر انصار نے مہاجرین سے کہا پھر آپ ایسا کرلیں کہ کام ہماری طرف سے آپ انجام دیا کریں اور کھجوروں میں آپ ہمارے ساتھی ہوجائیں۔ مہاجرین نے کہا ہم نے آپ لوگوں کی یہ بات سنی اور ہم ایسا ہی کریں گے»

(6) ” سیدنا علی کا اعلان: نبی کے بعد ابوبکر و عمر افضل ہیں”:
محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ:

“أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ ثُمَّ مَنْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ عُمَرُ وَخَشِيتُ أَنْ يَقُولَ:‏‏‏‏ عُثْمَانُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ ثُمَّ أَنْتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا أَنَا إِلَّا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ” [صحيح البخاري: 3671]

«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ میں نے پوچھا پھر کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ہیں، مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب پھر میں نے پوچھا کہ اس کے بعد؟ کہہ دیں گے کہ عثمان رضی اللہ عنہ اس لیے میں نے خود کہا، اس کے بعد آپ ہیں؟ یہ سن کر وہ بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں»

(7) “محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لاج: عمر کی نظر میں اسامہ کی فضیلت”:
اسلم عدوی مولیٰ عمر سے روایت ہے کہ:

“عَنْ عُمَرَ، أَنَّهُ فَرَضَ لِأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ فِي ثَلَاثَةِ آلَافٍ وَخَمْسِ مِائَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَفَرَضَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي ثَلَاثَةِ آلَافٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لِأَبِيهِ:‏‏‏‏ لِمَ فَضَّلْتَ أُسَامَةَ عَلَيَّ ؟ فَوَاللَّهِ مَا سَبَقَنِي إِلَى مَشْهَدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لِأَنَّ زَيْدًا كَانَ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَبِيكَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ أُسَامَةُ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكَ، ‏‏‏‏‏‏فَآثَرْتُ حُبَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حُبِّي” [سنن الترمذي: 3813، حسن ]

«سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے لیے بیت المال سے ساڑھے تین ہزار کا، وظیفہ مقرر کیا، اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے لیے تین ہزار کا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ سے عرض کیا: آپ نے اسامہ کو مجھ پر ترجیح دی؟ اللہ کی قسم ! وہ مجھ سے کسی غزوہ میں آگے نہیں رہے، تو انہوں نے کہا: اس لیے کہ زید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے باپ سے اور اسامہ تم سے زیادہ محبوب تھے، اس لیے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب کو اپنے محبوب پر ترجیح دی»

(8) “صحابہ کی بے لوث قربانی: اپنے اہل و عیال پر دوسروں کو مقدم رکھنا”:
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَعَثَ إِلَى نِسَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَ:‏‏‏‏ مَا مَعَنَا إِلَّا الْمَاءُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ يَضُمُّ أَوْ يُضِيفُ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَنَا فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى امْرَأَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَكْرِمِي ضَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ مَا عِنْدَنَا إِلَّا قُوتُ صِبْيَانِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَيِّئِي طَعَامَكِ وَأَصْبِحِي سِرَاجَكِ وَنَوِّمِي صِبْيَانَكِ إِذَا أَرَادُوا عَشَاءً،‏‏‏‏ فَهَيَّأَتْ طَعَامَهَا وَأَصْبَحَتْ سِرَاجَهَا وَنَوَّمَتْ صِبْيَانَهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَتْ كَأَنَّهَا تُصْلِحُ سِرَاجَهَا فَأَطْفَأَتْهُ،‏‏‏‏ فَجَعَلَا يُرِيَانِهِ أَنَّهُمَا يَأْكُلَانِ فَبَاتَا طَاوِيَيْنِ،‏‏‏‏ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ضَحِكَ اللَّهُ اللَّيْلَةَ أَوْ عَجِبَ مِنْ فَعَالِكُمَا،‏‏‏‏ فَأَنْزَلَ اللَّهُ:‏‏‏‏ “وَ يُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ” [صحيح البخاري: 3798]

«ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھوکے حاضر ہوئے، آپ نے انہیں ازواج مطہرات کے یہاں بھیجا، تاکہ ان کو کھانا کھلا دیں، ازواج مطہرات نے کہلا بھیجا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی کون مہمانی کرے گا؟ ایک انصاری صحابی بولے میں کروں گا۔ چناچہ وہ ان کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر تواضع کر، بیوی نے کہا کہ گھر میں بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز بھی نہیں ہے، انہوں نے کہا جو کچھ بھی ہے اسے نکال دو اور چراغ جلا لو اور بچے اگر کھانا مانگتے ہیں تو انہیں سلا دو۔ بیوی نے کھانا نکال دیا اور چراغ جلا دیا اور اپنے بچوں کو بھوکا سلا دیا، پھر وہ دکھا تو یہ رہی تھیں جیسے چراغ درست کر رہی ہوں لیکن انہوں نے اسے بجھا دیا، اس کے بعد دونوں میاں بیوی مہمان پر ظاہر کرنے لگے کہ گویا وہ بھی ان کے ساتھ کھا رہے ہیں، لیکن ان دونوں نے اپنے بچوں سمیت رات فاقہ سے گزار دی، صبح کے وقت جب وہ صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں میاں بیوی کے نیک عمل پر رات کو اللہ تعالیٰ ہنس پڑا یا یہ فرمایا کہ اسے پسند کیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

“و يؤثرون على أنفسهم ولو کان بهم خصاصة ومن يوق شح نفسه فأولئك هم المفلحون‏”

«اور وہ انصار ترجیح دیتے ہیں اپنے نفسوں کے اوپر دوسرے غریب صحابہ کو اگرچہ وہ خود بھی فاقہ ہی میں ہوں اور جو اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا گیا سو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں»

تحریر: افضل ظہیر جمالی

یہ نھی پڑھیں: دفاع صحابہ بزبان قرآن