بھوک کی آگ کے الاؤ بھی کس قدر جھلسا دینے والے ہیں جس کو لگ جائے یا تو اس کی جان لے لیتے ہیں  یا اس کی عفت، آبرو اور سفید پوشی کی چادر کو تار تار کردیتے ہین۔ میرے سامنے ایک حافظ قرآن معصوم لڑگی کی مردہ حالت میں  تصویر ہے جس کی نوخیزی کے عالم کو دیکھ کر یہ گمان ہی نہیں ہوتا کہ بھلا اس کو بھی موت آسکتی ہے۔ روح سے آزاد جسم کو دیکھ کر یقین ہی نہیں ہوتا کہ یہ اب زندوں میں سے نہیں ہے بلکہ اس کا شمار ان میں ہوتا ہے جسے ہم مردہ یا فوت شدہ کہتے ہیں۔

ہمارے معاشرے کی منافقت، خودغرضی، جوروستم اوردیگر سماجی ناہمواریوں سے اب یہ بے چاری لڑکی آزاد ہوچکی ہے۔ اس کی موت پر گو کہ دل گرفتگی تو ہوئی ہے مگر یہ خیال بھی دل کو سمجھا دیتا ہے کہ زندہ رہ کر بھی بے چاری نے اس کسمپرسی کو ہی سہنا تھا جس وجہ سے آج یہ ہمارے نفرت زدہ معاشرے میں نہیں ہے۔ تیرہ چودہ سال کی معصوم بچی کی موت کی وجہ جان کر دل رنجیدہ ہو گیا کہ بھلا اب اور اس دور میں بھی ایسا ہو سکتا ہے؟ اس بچی کا ماں باپ نہیں تھا۔اس کی دادی ہی اس کا واحد سہارا تھی، ضعیف دادی اس کا باپ بھی تھا اور ماں بھی ، اس بچی کے دو بھائی بھی تھے جو بالکل چھوٹے تھے، دادی پرائیویٹ سکول میں ایک چھوٹی سی دوکان چلاتی تھی جس میں بچوں کے لیے گولیاں ٹافیاں بسکت وغیرہ بیچ کر گزارہ کرتی تھی۔ اس دوکان سے جو تھوڑا بہت کماتی اپنی پوتی اور پوتوں کو لا کر دے دیتی۔جس سے ان کے جسم اور روح کا رشتہ قائم تھا، پیٹ میں دو وقت کی سوکھی روٹی چلی جاتی۔ سانسیں بحال تھی اور زندگی تانتا بندھا ہوا تھا۔

مگر ہوا یوں کہ سکول کی چھٹیاں شروع ہو گئیں، چھوٹی سی کینٹین بند ہوگئی، دادی اماں جو گھر کچھ پیسے لاتی تھی وہ آنا بند ہوگئے، گھر میں کچھ تھوڑا بہت جو آٹا چاول موجود تھے وہ بھی نہ رہے، ایک دن دو دن کسی پڑوسی سے کچھ آٹا دانہ مانگا مگر کون دیتا ہے اور کہاں تک دیتا ہے، پھر ایک وقت کوئی ایک آدھی روٹی بھی نہ ہوتی اور کبھی آجاتی تو یہ بچی اپنے چھوٹے بھائیوں کو دے دیتی کہ یہ کھا لیں میری خیر ہے، میں تو بڑی ہوں اور مجھے تو ان کے امی ابو کی جگہ صبر بھی کرنا ہے، انہیں فاقوں کے اور بھوک کے جاں گھسل لمحات کے بیچ وہ بے چاری بیمار ہو جاتی ہے، دوائی لینا اور علاج کرانا کیسےممکن ہوتا ایک وقت کی روٹی اور چند لقموں کےلیے بھی ترس رہی تھی۔ اسی بھوک ، افلاس اور کسمپرسی میں گھری یہ ننھی سی بیٹی اور اپنے چھوٹے بھائیوں کا بوجھ اپنے سر لیے ہمارے اس خود غرض اور ظالم سماج سے رخصت ہو جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ ننھی لڑکی حافظ قرآن تھی۔ کل قیامت کے دن کسی جان کی یوں بھوکوں مرجانے کا بوجھ ہمارے حکمرانوں کی گردن پر ہوگا تو ساتھ یہ جرم بھی ان کے کھاتے میں جائے گا ظالو ! ایک حافظ قرآن یوں بلک بلک کر مر گئی جس کے سینے میں وہ عظیم کتاب محفوظ تھی جو انسانوں ہی نہں جانوروں کو بھی اس حالت تک پہنچانے سے روکتی ہے۔

غریب بھوک کی ٹھوکر سے خون خون ہوئے
کسی امیر کو اب تو لہو کی باس آئے

قارئین یہ ایک واقعہ ہے جو سوشل میڈیا پر موجود ہے، ہو سکتا ہے اس کے متعلق معلومات ایسے نہ ہوں یا کچھ مختلف ہوں مگر سوال یہ ہے کہ ایسا ایک واقعہ  نہیں ہے بلکہ بے شمار واقعات آئے روز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ چند دن پہلے نیشنل ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ ماں نے تین بچوں سمیت خود کشی کر کے  اس وجہ سے موت کو گلے لگا لیا کہ اس کے پاس بچوں کے کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔

حکمران جو ہم پر مسلط ہیں ان کے سینوں میں دل اور احساس نام کی شے ہی نہیں ہے۔ ان ظالموں کی وجہ سے غریبوں  کی زندگی  اتنی مشکل ہوگئی ہے اور ان کو اس کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہے۔ جہاں پہلے ہی دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں۔ لوگ نان شبینہ کے لیے ترس رہے ہیں وہاں ٹیکس پر ٹیکس لگا کر جینا مزید دشوار کر رہے ہیں۔ ایک شخص جو اٹھارہ بیس ہزار مہینے کا کما رہا ہے اسے جب آٹھ ہزار بجلی کا بل آجائے گا تو وہ اس کے بچے دو وقت کی روٹی کیسے کھائیں گے، وہ جس کرب سے گزرے گا اور اسے جو غم روزگار سے مرض لاحق ہو چکے ہیں ان میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ وہ  ٹینش اینگزائٹی اور فرسٹیشن کا مزید شکار ہوجائے گا۔ انہیں حالات میں وہ سوچتا ہے کہ اب آسان حل یہی رہ گیا ہے۔ بچوں کو بھوک پیاس سے بلکتا دیکھوں کیوں نہ ان کو ختم کر کے خود بھی موت کو گلے لگا لوں۔

مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے

بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی

یہ ظالم حکمران ایسی معاشی پالیساں مرتب کر رہے ہیں جس سے آئے دن عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو رہی ہے ، غریب موت کو گلے لگا رہا ہے۔سفید پوشی کا دم گھٹ رہا ہے کہ سفید پوش سوال کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ حکمرانوں  کی یہ باتین کہ ہم مجبور ہیں اور معاشی حالات ایسے ہیں کہ ٹیکسز لگانا پڑ رہے ہیں تو بندہ پوچھے جو 45 ارب کی نئی گاڑیاں صرف بیوروکریٹس کو الاٹ کر دی گئی ہیں جبکہ ان کے پاس پہلے ہی گاڑیاں موجود ہیں۔ پھر اربوں روپے کے فنڈز اپنے وزیروں اور ایم پی اے ایم این ایز کو دے رہے ہیں۔ کیا یہ بھی مجبوری ہے؟ یہ اربوں روپے غریب عوام کی دو وقت کی روٹی کو آسان کرنے کے لیے لگائے ہوتے ۔ ٹیکس کی مد میں آئے روز جو نئے ٹیکس لگا کر نکلتا ہوا سانس بھی مشکل کر رہے ہیں۔ یہ سب تو نہ کریں۔

 روٹی امیرِ شہر کے کتوں نے چھین لی
 فاقہ غریب شہر کے بچوں میں بٹ گیا

بھوک اور افلاس سے جو عوام کا حال ہو رہا ہے۔ غریب عوام آئے روز فاقوں کے ہاتھوں مجبور ہیں اور خود کشیاں کر رہے ہیں، اس کا بار ان حکمرانوں کی گردنوں پر ہوگا۔جو اپنی عاشیوں کو تو معمولی سا بھی کم نہیں ہونے دیتے مگر غریب کے منہ سے نوالہ بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔  سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا اگر دریائے فرات کے کنارے ایک بکری یا کتےکا بچہ بھی بھوکا مر گیا تو خطاب کا بیٹا اس کا ذمہ دار ہے۔

ایسے معاملات میں  ہماری بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہے کہ دیکھیں ہمارے اردگرد اڑوس پڑوس یا رشتہ داروں میں  کوئی حالات کی وجہ سے اتنا تو مجبور نہیں ہے کہ دو وقت کی روٹی ہی نہ کھا سکتا ہو۔ ان حالات میں اس کی مدد کرنا بہت بڑے اجر کا باعث ہے۔ اپنی استعداد میں رہ کر کچھ نہ کچھ ضرور اس کو دیں یا ایک وقت کا آٹا ہی دے دیں اور یہ کوئی مشکل نہیں ہے۔ چلو ایک وقت کی روٹی تو پکے، ہمارے معاشرے بھی اب اس قدر  بےحس اور خود غرض ہو رہے ہیں جس وجہ سے لوگ ہمارے اردگرد اس قدر مجبور ہوتے ہیں اور ہمیں یا تو علم ہی نہیں ہوتا اور اگر پتہ ہو بھی تو اگنور کر دیتے ہیں اور احساس ہی نہیں رہتا۔ اللہ ہمیں ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی توفیق دے اور ہمارے اوپر مسلط ان حکمرانوں سے چھٹکارا دے کوئی دین اور عوام کا ہمدرد اور حامی حکمران پیدا کر دے۔