یہ کس قدر بد نصیب لوگ ہیں

وہ لوگ کس قدر بد بخت ٹھرے ہیں، ان لوگوں نے کتنے لوگوں کے گناہوں کو اپنے سر پر اٹھایا ہے، جنہوں نے اپنی تحریر و تقریر اور تالیف و تصنیف کے ذریعے امت کے درمیان اصحاب محمد کے بغض کو فروغ دیا ہے، جنہوں نے اصحاب محمد کو امت کے درمیان مجروح و مطعون ٹھرانے کے لیے رات دن کی کوششیں کی ہیں، اصحاب محمد کے درمیان تفریق کرکے امت کو منتشر کیا ہے، اصحاب محمد کے دامن کو ظلم و جبر سے داغ دار کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ امت کا اعتماد ان سے اٹھ جائے، جو ان کے ناپاک دلوں کے اندر غلیظ افکار و خیالات تھے، ان کو لکھ کر امت کے درمیان پھیلا کر اپنے ناپاک عزائم کو تکمیل دینے کی کوشش کی ہے، آج بھی سوشل میڈیا پر جو لوگ اصحاب محمد کے خلاف بولتے ہیں، وہ بھی ان کے نوالوں کی جگالی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی تمام کوششوں کو اور ان کی جماعت کو غارت کردے، جو اصحاب محمد کے خلاف امت کو ابھار کر ان کو مطعون ٹھرانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

سوشل میڈیا میں کئی فالوورز کے بھوکے اور تشہیر کے بھوکے جن کو کوئی اور کام ہاتھ نہیں آیا تو انھوں نے اصحاب محمد کے خلاف بول کر تشہیر حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔

یاد رکھیں لوگ چلے جاتے ہیں، مٹی کے کئی ڈھیروں کے نیچے آجاتے ہیں، ہڈیاں بن کر گل سڑ جاتے ہیں، لیکن ان کے ناپاک عزائم اور ارادے جن کو انہوں نے تصنیف و تقریر کا رنگ دیا تھا وہ باقی رہتے ہیں، جن کے عوض تاقیامت گناہوں کا ایک بھاری سلسلہ اٹھاتے ہیں، ان کے نامے اعمال سیاہ ہوتے جاتے ہیں۔

اس لیے خدارا لکھتے ہوئے، بولتے ہوئے یہ لحاظ رکھنا چاہیے کہ میں کیا لکھ رہا ہوں، کیا بول رہا ہوں، میری تحریر و تقریر کے ذریعے امت کو کیا پیغام جا رہا ہے، کیا میں امت کے انتشار کا سبب بن رہا ہوں یا اتحاد کا سبب بن رہا ہوں، میں کتنے لوگوں کی گمراہی کا سبب بنا ہوں یا میں کتنے لوگوں کی ہدایت کا سبب بنا ہوں، میں نے کتنے گناہ اپنے سر پر لیے ہوئے ہیں یا کتنا ثواب کما چکا ہوں۔ ہر شخص کو یہی سوچنا چاہیے۔
فاعتبروا یا اولی الابصار!

(افضل ظہیر جمالی)

یہ بھی پڑھیں: “فرشتوں کا میرے نبی کریم ﷺ کے جانثاروں سے پیار “