یہ رکشہ ڈرائیور نہیں، مدینہ منورہ سے فاضل مفتی صاحب ہیں
تصویر میں نظر آنے والی شخصیت مفتی جنید اقبال صاحب حفظہ اللہ ہیں، آپ پاکستان کے نمایاں اداروں سے علم حاصل کرنے کے بعد عالم اسلام کی سب سے معروف یونیورسٹی ’جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ’ سے فارغ التحصیل ہیں۔
مدینہ میں رہتے ہوئے انہوں نے مسجد نبوی اور جامعہ اسلامیہ میں کئی ایک اہم ذمہ داریاں سنبھالیں اور دعوت و تبلیغ کے حوالے سے کئی اہم فرائض سر انجام دینے کی سعادت حاصل کی۔
حضرت پاکستان میں ایک عرصے سے مسجد، مدرسہ، میڈیا، سوشل میڈیا جیسے روایتی اور جدید ذرائع اختیار کرتے ہوئے تدریس، دعوت و تبلیغ، افتاء و کونسلنگ کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
لیکن یہ حضرت رکشے میں بیٹھے کیا کر رہے ہیں؟ اس کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔ کسی نے اگر یہ منظر کیمرے میں محفوظ نہ کیا ہوتا تو شاید کسی کو یقین نہ آتا۔
آئیے اس تصویر کی کہانی جانیے!
حضرت اپنے آفس میں موجود تھے کہ کسی کا فون آیا۔ یہ صاحب ایک رکشہ ڈرائیو تھے، جن کا اپنی بیوی کے ساتھ طلاق کا مسئلہ چل رہا تھا، اس سلسلے میں وہ حضرت مفتی صاحب سے ملنا چاہتے تھے۔
لیکن اتفاق یہ ہوا کہ حضرت کے آفس میں رش تھا، جبکہ یہ جوڑا ایمرجنسی میں ملنا چاہتا تھا۔ بڑا آسان کام تھا، کہہ دیا جاتا کہ کل آئیں، فلاں وقت آئیں، انتظار کریں، ادھر آفس میں آ کر مل سکتے ہیں تو مل لیں، ورنہ ممکن نہیں ہے… وغیرہ وغیرہ!
لیکن یہ امت کا درد رکھنے والے عالم دین اور سائلین کی مشکلات کا احساس کرنے والے مفتی صاحب تھے لہذا تمام پروٹوکول اور ادب و آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، سڑک پر آئے اور تسلی سے میاں بیوی کی بات سنی اور ان کی آپس میں صلح کروائی!
یہ دوپہر بارہ بجے شدید جھلسا دینے والی گرمی ہے، جس میں ایک عالم دین اپنے ٹھنڈے آفس سے نکل کر سڑک پر کھڑے رکشے کو آفس بنا کر، میاں بیوی میں صلح کروا رہا ہے، نہ فیس کا مطالبہ، نہ کوئی اور پروٹوکول۔
اگر یہ کسی آفیسر کا پلان شدہ وزٹ ہوتا تو اب تک سوشل میڈيا پر وائرل ہو چکا ہوتا!
کتنے ہی ایسے علمائے کرام ہیں، جو ہر وقت معاشرے کی خدمت اور ان کے مسائل سننے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں!
جنہیں سردی کی پرواہ ہوتی ہے نہ گرمی کا کوئی خطرہ۔ جن کے ہاں دن اور رات کا کوئی فرق نہیں، آرام اور کام کے لیے کوئی خاص نظام الاوقات نہیں ہوتا، جو پروٹوکول چاہتے ہیں نہ کوئی رسمی فیس اور نذرانے!
اللہ تعالی امت کے ان محسنین کی قربانیاں اور خدمات کو قبول فرمائے اور ہمیں ان کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
#خیال_خاطر