سوال (2793)

اکثر خواتین آج کل یوگا کی کلاسز لیتی ہیں، کیا یوگا اسلام میں جائز ہے یہ بھی کہنا ہے کہ اس میں نماز میں یکسوئی کے لیے ایکسائز کروائی جاتی ہے، کیا یہ درست بات ہے، یوگا بدھ ازم کی تعلیم ہے۔

جواب

سب سے پہلے بطور تمہید “یوگا” کا مفصل تعارف پیش خدمت ہے تاکہ مسئلہ کی اصل حقیقت تک پہنچنے میں آسانی ہو، یوگا روحانی، جسمانی اور ذہنی مشقوں کا ایک مجموعہ ہے جو قدیم ہندوستان میں شروع ہوا تھا۔ یوگا کا لفظی مطلب ہے شامل کرنا۔ یوگا جسمانی ورزش، جسمانی کرنسی (آسن)، مراقبہ، سانس لینے کی تکنیک اور ورزش کو یکجا کرتا ہے۔
اس لفظ کے بالکل معنی ہیں ‘یوگا’ یا اپنے اندر روحانی کے ساتھ جسمانی کا اتحاد، یہ عالمگیر شعور کے ساتھ انفرادی شعور کے اتحاد کی بھی علامت ہے، جو دماغ اور جسم، انسان اور فطرت کے درمیان کامل ہم آہنگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یوگا کی مشق کا ذکر رگ وید اور اپنشدوں میں بھی ملتا ہے۔
پتنجلی کا یوگا سترا (دوسری صدی قبل مسیح)، یوگا پر ایک مستند مقالہ ہے اور اسے کلاسیکی یوگا فلسفہ کا بنیادی متن سمجھا جاتا ہے۔
جدید دور میں، اور خاص طور پر مغرب میں، یوگا کو بڑے پیمانے پر جسمانی ورزش کے ساتھ ساتھ مراقبہ اور کرنسیوں کے طور پر اپنایا جا رہا ہے۔ تاہم، یوگا کا مقصد صحت مند دماغ اور جسم سے بالاتر ہے۔
یوگا ہندو فلسفہ کے چھ درشنوں (چھ فلسفوں) میں سے ایک ہے۔ یہ 6 فلسفے سانکھیا، یوگا، نیایا، وشیشیکا، میمسا اور ویدانت کے نام سے مشہور ہیں۔ پتنجلی، گوتم، کناد، کپل، جیمنی اور بدرائن کو ان فلسفوں کا موجد مانا جاتا ہے۔ ان فلسفوں کے ابتدائی اشارے اپنشدوں میں بھی ملتے ہیں۔
یوگا کی اصل:
یوگا کی ابتدا کے صحیح وقت پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ اس کی ابتدا وادی سندھ کی تہذیب کے دور میں ہوئی، جب کہ دوسروں کا کہنا ہے کہ یوگا کی ابتدا مشرقی ہندوستان میں ویدک دور سے ہوئی تھی۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی ابتدا ویدک دور میں ہوئی تھی۔ باقی لوگ شرمانا روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ موہنجوداڑو سے برآمد ہونے والی پشوپتی مہر مولابنداسنا (یوگا کے بیٹھنے کی کرنسی) میں بیٹھی ہوئی ایک شخصیت کو ظاہر کرتی ہے، اور اسی لیے کچھ محققین اسے یوگا کی وادی سندھ کی ابتدا کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ابتدائی بدھ متوں، مدھیہ اپنشدوں، بھگواد گیتا وغیرہ میں یوگا کی منظم طریقے سے وضاحت کی گئی ہے۔ جدید دور میں، رام کرشنا پرمہمس، پرمہمس یوگنند، سوامی وویکانند، رمنا مہارشی وغیرہ جیسے گرووں نے پوری دنیا میں یوگا کی ترقی اور مقبولیت میں اپنا حصہ ڈالا۔ یوگا کا لفظ سب سے پہلے رگ وید کی ایک آیت میں صبح کے وقت طلوع ہونے والے سورج کے لیے استعمال ہوا ہے۔ تاہم، رگ وید میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ یوگک مشقیں کیا تھیں۔ یوگا کی مشق کے ابتدائی حوالہ جات میں سے ایک برہدرنیاک اپنشد میں پایا جا سکتا ہے، جو پہلی اپنشدوں میں سے ایک ہے۔ تاہم، یوگا کا لفظ کتھا اپنشد میں معاصر دور میں اسی معنی کے ساتھ پایا جاتا ہے۔
یوگا کی اقسام (یوگا پوز):
یوگا جسمانی اور ذہنی شعور کو بڑھانے میں مدد کرتا ہے۔ جدید یوگا ایک ایسا طریقہ ہے جو ورزش، طاقت، لچک اور سانس لینے پر توجہ کے ساتھ تیار ہوا ہے۔ جدید یوگی (یوگا پوز) کے بہت سے انداز ہیں۔ یوگا کی مختلف اقسام اور طرزوں کے بارے میں تفصیلی معلومات ذیل میں دی گئی ہیں۔
اشٹنگ یوگا:
یہ یوگا انداز پچھلی چند دہائیوں کے دوران سب سے زیادہ مقبول ہوا۔ اس قسم کے یوگا میں یوگا کی قدیم تعلیمات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اشٹنگ یوگا تیز سانس لینے کی مشق کو یکجا کرتا ہے۔ بنیادی طور پر 6 کرنسیوں کا ہم آہنگی ہے۔
بکرم یوگا:
بکرم یوگا بنیادی طور پر مصنوعی طور پر گرم کمرے میں انجام دیا جاتا ہے۔ جہاں درجہ حرارت تقریباً 105 ڈگری (105 ° فارن ہائیٹ) اور نمی 40 فیصد ہے۔ اسے ہاٹ یوگا بھی کہا جاتا ہے۔ اس یوگا میں کل 26 پوز ہیں اور سانس لینے کی دو مشقوں کا ایک سلسلہ ہے۔
ہتھا یوگا:
یہ کسی بھی یوگا کے لیے ایک عام اصطلاح ہے جس کے ذریعے جسمانی کرنسی سیکھی جاتی ہے۔ ہتھا یوگا بنیادی یوگا آسن کے تعارف کے طور پر کام کرتا ہے۔
آئینگر یوگا:
اس قسم کے یوگا میں تمام آسن مختلف سہارے جیسے کمبل، تکیہ، کرسی اور گول لمبے تکیے وغیرہ کا استعمال کرتے ہوئے کیے جاتے ہیں۔
جیو مکتی یوگا:
جیو مکتی کا مطلب ہے “زندہ رہتے ہوئے آزادی۔” یوگا کی یہ شکل 1984 کے آس پاس ابھری۔ بعد میں اسے روحانی تعلیمات اور یوگا کے طریقوں میں شامل کیا گیا۔ جیوامکتی یوگا میں، کسی ایک کرنسی پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے دو آسنوں کے درمیان تحریک کو بڑھانے پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس مراقبہ (توجہ) کو Vinyasa کہا جاتا ہے۔ ہر کلاس کا ایک تھیم ہوتا ہے، جسے یوگا کے صحیفوں، منتر، مراقبہ، آسن، پرانایام اور موسیقی کے ذریعے دریافت کیا جاتا ہے۔ جیوا مکتی یوگا میں جسمانی طور پر شدید سرگرمیاں کی جاتی ہیں۔
کرپالو یوگا:
کرپالو یوگا پریکٹیشنر کو اس کے جسم سے جاننا، قبول کرنا اور سیکھنا سکھاتا ہے۔ کرپالو یوگا کے پریکٹیشنرز اندر کی طرف دیکھ کر اپنی سطح پر مشق کرنا سیکھتے ہیں۔ اس کی کلاسیں سانس لینے کی مشقوں اور جسم کو ہلکے سے کھینچنے سے شروع ہوتی ہیں۔ اس کے بعد آرام کے ادوار کا ایک سلسلہ بھی ہے۔
کنڈلنی یوگا:
یہاں کنڈلینی کا مطلب ہے سانپ کی طرح کنڈلی ہونا۔ کنڈالینی یوگا مراقبہ کا ایک نظام ہے۔ اس کے ذریعے دبی ہوئی اندرونی توانائی کو باہر لانے کا کام کیا جاتا ہے۔
بین الاقوامی یوگا دن:
یوگا کا عالمی دن ہر سال 21 جون کو منایا جاتا ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ 21 جون سال کا سب سے بڑا دن ہے اور یوگا انسانوں کو لمبی عمر بھی فراہم کرتا ہے۔ اس لیے اس دن یوگا ڈے منایا جاتا ہے۔ پہلا یوگا ڈے 21 جون 2015 کو منایا گیا، جس کی شروعات ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 27 ستمبر 2014 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں کی تھی۔
اس کے بعد 11 دسمبر 2014 کو 21 جون کو بین الاقوامی یوگا ڈے کے طور پر منانے کی تجویز کو اقوام متحدہ کے 177 ممبران نے منظور کیا۔ ہندوستانی وزیر اعظم کی یوگا ڈے کی قرارداد 90 دنوں کے اندر مکمل اکثریت کے ساتھ منظور کی گئی، جو اقوام متحدہ میں کسی بھی قرارداد کے لیے سب سے کم وقت ہے۔
اس مفصل تمہید کا خلاصہ یہ ہے کہ یوگا دراصل ایک ہندوانہ طرز عبادت ہے۔ اس میں مخصوص شرکیہ الفاظ کا ورد کیا جاتا ہے اور سورج کا -کہ جب یہ مشرق سے نکل رہا ہوتا ہے، اور مغرب میں غروب ہو رہا ہوتا ہے۔ استقبال کیا جاتا ہے۔
اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ اسلام ریاضت کی مخالفت نہیں کرتا، بلکہ کوئی بھی ریاضت جس میں درج ذیل امور کا خیال رکھا جائے وہ ریاضت مباح وجائز قرار پائے گی:
1: اس ریاضت سے بدن کو فائدہ ومنافع حاصل ہو اور کسی قسم کا نقصان نا ہو۔
2: اس میں کسی قسم کے خلاف شرع افعال نا ہوں۔
اس ضمن میں ایک مختصر سا قاعدہ ذہن نشین کر لینا چاہیے:

“كل رياضة مخالفة لمبادئ الشريعة وقواعدها وأصولها ومشتملة على الشرك فيحرم تعلمها وتعليمها”.

اس مفصل تمہید کے بعد عرض کہ یوگا کی ریاضت کرنا کئی ایک وجوہات کی بنا کر حرام ہے:
1: اس میں عقیدہ توحید کی صریح طور پر مخالفت پائی جاتی ہے۔
2: اس میں کفار وہنود کی مشابہت پائی جاتی ہے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کی مشابہت سے منع فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: من تشبه بقوم فهو منهم.
3: اس میں کچھ آسن بہت زیادہ مشکل ہیں کہ جن سے جسم کو ضرر لاحق ہوتا ہے جو کہ شریعت میں منع ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ،

اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: لا ضرر ولا ضرار.
4: اس میں وقت کافی زیادہ صرف کرنا پڑتا ہے اور عبادت کے لیے مناسب وقت نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے روز قیامت جو سوالات پوچھنے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ: وعمره فيما أفناه.
5: اس میں ستر کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا۔
لیکن “مفهوم المخالف معتبر هنا” کے تحت اس ریاضت کو حلال قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے علماء کرام نے چند ایک شرائط ذکر کی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
1: اس میں جو مخصوص قسم کے غیر شرعی “أوزاع يعني پوز” ہیں ان کو بدلا جائے۔ اور ایسے أوزاع اختیار کر لیں جائیں جو خلاف شرع نا ہوں۔
2: جسم کے ستر کا شرعی احکام کے مطابق خیال رکھا جائے۔
3: سورج کا استقبال ہندوآنہ طریقے کے مطابق نا کیا جائے۔
4: اس سے جسم کو کوئی نقصان نا پہنچ پائے۔
والله تعالى أعلم والرد إليه أسلم.

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ