سوال (1788)
یوم عرفہ کا روزہ کب رکھا جائے گا؟
جواب
عرفہ کے روزہ کی تحدید میں علماء کے درمیان بڑا اختلاف پایا جاتا ہے، بعض علماء کا کہنا ہے کہ پوری دنیا کے لوگ مکہ کے حساب سے عرفہ کا روزہ رکھیں گے، جبکہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ سب اپنی اپنی رؤیت کے حساب سے روزہ رکھیں گے۔
محترم قارئین! اگر آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وعمل اور امت کے تعامل پر غور وفکر کریں گے تو آپ پر حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی ان شاء اللہ۔
سب سے پہلی بات یہ کہ دین اسلام میں بعض روزہ کا تعلق چاند دیکھنے سے ہے، یعنی چاند دیکھ کر روزہ رکھا جائے، جیسے ماہِ رمضان کا روزہ، محرم الحرام کی نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ، اور ایامِ بیض کا روزہ۔
اور بعض روزہ کا تعلق چاند دیکھنے سے نہیں ہے، بلکہ اس کی تخصیص بعض ایام سے کی گئی ہے، جیسے سوموار اور جمعرات کا روزہ۔
اب ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ یومِ عرفہ کے روزہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کے ساتھ خاص کیا ہے یا پھر کسی دن کے ساتھ۔
اگر چاند کے ساتھ خاص ہے تو پھر سب لوگ اپنی اپنی رؤیت کے حساب سے روزہ رکھیں گے جیسے ماہِ رمضان اور ایامِ بیض کا روزہ رکھا جاتا ہے، اور اگر کسی دن کے ساتھ خاص ہے تو پوری دنیا کے لوگ اسی دن روزہ رکھیں گے جیسے سموار جمعرات کا روزہ رکھا جاتا ہے۔
اگر عرفہ کے روزہ کو ہم دن کے ساتھ خاص کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عرفہ کا دن تاریخ کے بدلنے سے نہیں بدلے گا بلکہ وہ اپنی جگہ قائم ودائم رہے گا، جیسے سموار اور جمعرات کا دن ہوتا ہے، لیکن عرفہ کے روزہ کو دن کے ساتھ مخصوص کرنا صحیح نہیں کیوں کہ عرفہ کا دن ہفتہ کے دنوں کی طرح ثابت نہیں رہتا بلکہ چاند کے حساب سے بدلتا رہتا ہے، چناں چہ کبھی عرفہ جمعہ کو ہوتا ہے تو کبھی سنیچر کو، اور کبھی ہفتہ کے دیگر ایام میں۔
لہذا صحیح بات یہی ہے کہ عرفہ کا دن تاریخ سے مرتبط ہے اور اس دن کا روزہ چاند کے حساب سے ہی رکھا جائے گا۔
دوسری بات یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حج زندگی کے آخری سال میں کیا ہے، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں نہیں رہے، اور جو حاجی ہو اس کیلئے مستحب یہ ہے کہ وہ عرفہ کا روزہ نہ رکھے، کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حالتِ حج میں عرفہ کا روزہ نہیں رکھا تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج سے قبل مدینہ میں عرفہ کا روزہ رکھا کرتے تھے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ جس سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حج کیا اسی سال عرفہ کے دن بعض صحابہ کے مابین اختلاف ہوگیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے عرفہ کا روزہ رکھا ہے یا نہیں، چنانچہ اس اختلاف کو دیکھتے ہوئے مسئلہ کی تحقیق کی غرض سے ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا نے دودھ کا ایک پیالہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیجا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے پی لیا۔ [صحیح بخاري: 1988، صحیح مسلم: 1123]
قارئین کرام: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں صوم عرفہ کے متعلق اختلاف کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حج سے قبل نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین عرفہ کا روزہ رکھا کرتے تھے.
تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حج سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں جو عرفہ کا روزہ رکھتے تھے وہ مکہ کے عرفہ کے حساب سے یا پھر چاند کے حساب سے؟
کیوں کہ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ عرفہ کے روزے کو فضیلت در اصل عرفہ کے دن کے سلسلے میں وارد فضائل کی وجہ سے حاصل ہے، لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیوں کہ اگر ہم مسلمانوں کا پہلا حج ابو بکر وعلی رضی اللہ عنہما کی معیت میں سن 9ہجری میں بھی مان لیں تو بھی یہ بات محتاجِ تحقیق ہوگی کہ اس سے قبل تو عرفہ میں حاجیوں کا وقوف نہیں ہوتا تھا تو پھر عرفہ کے روزہ کو یہ فضیلت کیسے حاصل ہو گئی؟
پتہ یہ چلا کہ عرفہ کے روزہ کا حجاج کرام کے وقوفِ عرفہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق چاند دیکھنے سے ہے، اور اس روزہ کو وقوفِ عرفہ سے قبل ہی یہ فضیلت حاصل تھی کہ اس کے رکھنے سے دو سال کے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں۔
قارئینِ کرام! جب خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے روزہ کیلئے میدانِ عرفہ میں حاجیوں کے وقوف کا اعتبار نہیں کیا تو پھر پوری امتِ اسلامیہ کیلئے سعودی کے حساب سے روزہ رکھنا لازم قرار دینا بالکلیہ صحیح نہیں۔
لہذا راجح اور صحیح بات یہ ہے کہ کے اپنی اپنی رؤیت کے اعتبار سے عرفہ کا روزہ رکھا جائے۔
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا پکا متبع وفرمانبردار بنائے، اور عشرہ ذی الحجہ کے بقیہ ایام میں نیکیوں کی کثرت کی توفیق عطا فرمائے، اور ہماری نیکیوں کو شرفِ قبولیت بخشے۔
واللہ أعلم بالصواب
ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ
ناقل : فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ
سوال: یوم عرفہ کا روزہ پاکستانیوں کو جمعہ کو رکھنا چاہیے یا جمعرات کو اور آپ کس دن رکھیں گے۔
جواب: عرفہ کا روزہ جمعہ کے دن آ جائے تو؟
عرفہ، نو ذوالحجہ اگر جمعہ کو آ جائے تو کیا اکیلا جمعہ کا روزہ رکھ سکتے ہیں؟ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے اکیلا جمعہ کا روزہ رکھنے سے منع کیا ہے، جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«لَا تَخُصُّوا يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِصِيَامٍ مِنْ بَيْنِ الْأَيَّامِ».
’’دنوں میں سے جمعہ کے دن کو روزے سے خاص نہ کرو۔‘‘ (صحیح مسلم: ١١٤٤)
اسی طرح آپ ﷺ فرمایا:
«لَا يَصُومَنَّ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَّا يَوْمًا قَبْلَهُ أَوْ بَعْدَهُ».
’’آپ میں سے کوئی بھی جمعہ کے دن روزہ نہ رکھے، سوائے یہ کہ اس سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد بھی ساتھ روزہ رکھنا ہو۔‘‘ (صحيح البخاري: ١٩٨٥)
یاد رکھیں کہ اس حدیث میں جمعہ کے دن کی خاص فضیلت سمجھ کر اس دن کا روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے، لیکن یہ ممانعت اس صورت میں ختم ہو جاتی ہے جب روزے کا مقصد جمعہ کا دن خاص کرنا نہ ہو بلکہ بندہ کسی دوسری فضیلت کی وجہ سے روزہ رکھے۔ کیوں کہ ممانعت کی حدیث میں ہی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
«إِلَّا أَنْ يَكُونَ فِي صَوْمٍ يَصُومُهُ أحدكم».
’’سوائے اس کے کہ تم میں سے جو کوئی پہلے سے روزے رکھ رہا ہو۔‘‘ (صحیح مسلم : ١١٤٤)
⇚جیسا کہ علامہ ابو العباس قرطبی رحمہ اللہ (٦٥٦هـ) فرماتے ہیں:
“مقصود هذا الحديث: ألا يُخص بصوم يعتقد وجوبه، أو لئلا يلتزم الناس من تعظيمه ما التزمه اليهود في سبتهم؛ من تركهم الأعمال كلها: يعظمونه بذلك.”
’’اس حدیث کا مقصود یہ ہے کہ جمعہ کے دن کو روزے کے لیے خاص نہ کیا جائے اس اعتقاد کے ساتھ کہ اس کا روزہ واجب ہے، یا اس لیے کہ لوگ اس دن کی تعظیم میں وہی طرز اختیار نہ کر لیں جو یہود نے اپنے ہفتے کے دن کے بارے میں اختیار کی تھی؛ یعنی ان کا تمام کاموں کو چھوڑ دینا اور صرف اس دن کی تعظیم کے لیے اسے خاص کر لینا۔‘‘ (المفهم : ٣/٢٠١)
⇚ اسی طرح حافظ ابن قدامہ رحمہ اللہ (٦٢٠هـ) فرماتے ہیں:
“يُكْرَهُ إفْرَادُ يَوْمِ الْجُمُعَةِ بِالصَّوْمِ، إلَّا أَنْ يُوَافِقَ ذَلِكَ صَوْمًا كَانَ يَصُومُهُ، مِثْلُ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا فَيُوَافِقُ صَوْمُهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَمَنْ عَادَتُهُ صَوْمُ أَوَّلِ يَوْمٍ مِنْ الشَّهْرِ، أَوْ آخِرِهِ، أَوْ يَوْمِ نِصْفِهِ، وَنَحْوِ ذَلِكَ.”
’’جمعہ کے دن کو اکیلے روزہ رکھنے کے لیے مخصوص کرنا مکروہ ہے، الاّ یہ کہ وہ روزہ کسی ایسے معمول کے مطابق ہو جسے وہ پہلے سے رکھتا ہو، جیسے وہ شخص جو ایک دن روزہ رکھتا ہے اور ایک دن افطار کرتا ہے، اور اتفاق سے جمعہ کا دن اس کے روزے کے دن میں آ جائے، یا وہ شخص جس کی عادت مہینے کے پہلے دن، یا آخری دن، یا نصف میں روزہ رکھنے کی ہو، یا اسی طرح کے دوسرے معمولات ہوں۔‘‘ (المغني : ٣/١٧٠)
⇚ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (٢٤١هـ) فرماتے ہیں:
“إذا كان يوم عرفة يوم جمعة، ولم يكن صام قبله يومًا، يصوم يوم الجمعة.”
’’اگر عرفہ، جمعہ کے دن ہو، اور بندے نے پچھلے دن روزہ نہ رکھا ہو، تو بھی وہ جمعہ کے دن (یعنی یوم عرفہ) کا روزہ رکھے گا۔‘‘ (التعليقة الكبيرة لأبي يعلى: ٢/١٢٢)
⇚ اسی طرح امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا، کہ بندہ ایک دن روزہ رکھتا ہو اور ایک دن چھوڑتا ہو تو اس کے چھوڑنے دن جمعرات ہو، جمعہ روزے کا دن ہو اور ہفتہ پھر چھوڑنے کا روز ہو تو یہ اکیلا جمعہ کا روزہ رکھے گا؟
تو انہوں نے فرمایا:
“هذا الآن لم يَتَعَمَّدْ صَوْمَه خَاصَّة، إنَّما كُرِهَ أن يَتَعَمَّدَ الجُمُعَةَ.”
’’اس نے جان بوجھ کر جمعہ کو خاص کر کے روزہ نہیں رکھا، جبکہ مکروہ تب ہے جب جان بوجھ کر خاص کر کے اس کا روزہ رکھیں۔‘‘ (المغني: ٣/ ١٧٠)
⇚ سعودی فتوی کمیٹی کے علماء سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
“يشرع صوم يوم عرفة إذا صادف يوم جمعة ولو بدون صوم يوم قبله؛ لما ثبت عن النبي ﷺ من الحث على صومه وبيان فضله وعظيم ثوابه، قال رسول الله ﷺ: «صوم يوم عرفة يكفر سنتين: ماضية ومستقبلة، وصوم يوم عاشوراء يكفر سنة ماضية» رواه أحمد ومسلم وأبو داود. وهذا الحديث مخصص لعموم حديث: «لا يصومن أحدكم يوم الجمعة إلا أن يصوم يوما قبله أو بعده» رواه البخاري ومسلم. فيكون عموم النهي محمولا على ما إذا أفرده المسلم بالصوم؛ لكونه يوم جمعة، أما من صامه لأمر آخر رغب فيه الشرع وحث عليه فليس بممنوع، بل مشروع ولو أفرده بالصوم، لكن إن صام يوما قبله كان أولى لما فيه من الاحتياط بالعمل بالحديثين، ولزيادة الأجر.”
’’یوم عرفہ کا روزہ رکھنا مشروع ہے چاہے یہ جمعہ کے دن آجائے، اگرچہ اس سے ایک دن پہلے روزہ نہ رکھا ہو؛ کیونکہ نبی کریم ﷺ سے اس دن کے روزے کی ترغیب، اس کی فضیلت اور عظیم اجر کے بارے میں احادیث ثابت ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یوم عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، ایک گزشتہ سال کا اور ایک آنے والے سال کا، اور عاشورہ کے دن کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم: ١١٦٢)
یہ حدیث اس عمومی حدیث کی تخصیص کرتی ہے جس میں فرمایا گیا: ’’تم میں سے کوئی جمعہ کے دن روزہ نہ رکھے، الاّ یہ کہ وہ اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھے۔‘‘(صحیح البخاري: ١٩٨، صحیح مسلم: ١١٤٤) اس عمومی ممانعت کو اس صورت پر محمول کیا جائے گا جب کوئی شخص محض جمعہ کے دن کے اعتبار سے روزہ رکھے۔ البتہ اگر کوئی شخص کسی ایسے سبب سے روزہ رکھے جس کی شریعت نے ترغیب دی ہو، تو ایسا روزہ رکھنا ممنوع نہیں بلکہ مشروع ہے، اگرچہ اس نے جمعہ کو اکیلے روزہ رکھا ہو۔ لیکن اگر وہ اس سے ایک دن پہلے بھی روزہ رکھ لے تو یہ افضل ہوگا؛ اس میں دونوں حدیثوں پر عمل کا احتیاط بھی ہے اور اجر و ثواب میں اضافے کا باعث ہے۔‘‘ (فتاوى اللجنة الدائمة – المجموعة الأولى: ١٠/٣٩٥)
حاصلِ کلام یہ ہے کہ اگر عرفہ کا روزہ جمعہ کے دن آ جائے تو اس دن روزہ رکھا جا سکتا ہے، اس سے پہلے یا بعد میں کوئی روزہ رکھنا ضروری نہیں اور نہ ہی یہ اس کے روزے کی ممانعت میں شامل ہے۔ واللہ أعلم۔
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
دیکھیں کہ کوئی بھی یوم تاریخ سے خالی نہیں ہوتا ہے، لفظ یوم سے خوامخواہ غلط استدلال نہیں کرنا چاہیے، یوم عرفہ نو تاریخ کو ہے، ہمیشہ اپنے مطلع کے اعتبار سے روزہ ہوتا ہے، ادلہ یہی کہتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سوال: یوم عرفہ تو دنیا میں ایک ہی دن ہوتا اور وہ بھی صرف سعودیہ میں ہوتا ہے، تو کیا اس میں سعودیہ کے ساتھ ہی روزہ رکھیں اگر نہیں تو پھر ان الفاظ کے بارے میں کیا کہیں گئے۔
صیام یوم عرفہ، عرفہ سے پھر پاکستانی کس طرح پرسوں مراد لیں گے۔
جواب: یاد رہے کہ لفظ یوم سے کھیلنا نہیں چاہیے، ہر یوم کے پیچھے ایک تاریخ ہوتی ہے، آپ تصور کریں کہ آپ مکے میں موجود ہیں، یوم الترویہ ہے، آٹھ ذی الحجہ ہے، آپ یہ کہیں کہ ایسا کرتے ہیں کہ یوم عرفہ کو آج ہی نمٹا دیتے ہیں، کیا خیال ہے کہ آپ کا وقوف عرفہ ہو جائے گا، نہیں ہوگا، کیوں نہیں گیا، میں تو چلا گیا تھا، یوم بھی موجود ہے، آپ کے جانے سے یوم عرفہ نہیں بنے گا، نو تاریخ آئے گی تو یوم عرفہ بنے گا، تاریخ کا اعتبار ہے خواہ کہیں بھی ہو، لفظ سے نہیں کھیلنا چاہیے، یہ ظاہریت اسلام میں نہیں ہے، دوسرا یہ ہے کہ اگر سعودیہ میں یوم عرفہ ہے، باقی جن ممالک میں رات ہے، وہ کہاں جائیں گے، تیسرا یہ ہے کہ جو سعودیہ سے پہلے چاند دیکھ چکے ہیں، ان کے ہاں تو دس تاریخ ہوگی، سعودیہ میں نو ہوگی، سعودیہ والے عرفہ منا رہے ہیں، وہ عید منا رہے ہیں، ان کا روزہ کہاں گیا ہے، دیکھیں اگر سعودیہ میں شب قدر اکیسویں شب کل ہوگئی ہے، ہمارے ہاں آج ہے، اس کا کوئی ہمارے پاس جواب ہے۔ مسئلہ بالکل واضح ہے کہ نو تاریخ کا روزہ ہوتا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
ہم طالب علم ہیں، کچھ موضوعات پر توسع ہے، ان موضوعات پر پچھلے چودہ سو سال سے اختلافات چل کے آ رہا ہے، ہر سال اس پر بحث کرنے جو فوائد ہیں، وہاں کچھ نقصانات بھی ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب صوم یوم عرفہ کی بات آئے تو دونوں موقف بیان کرنے کے بعد علماء یہ بھی بتائیں کہ اس میں توسع ہے اور علماء کا اختلاف ہے، دونوں طرف علماء اور دلائل ہیں، اس پر الجھنے کی بجائے، اللہ تعالیٰ سے حسن نیت کے ساتھ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ جس طرح میں نے یہ موقف حسن نیت کی بنا پر اختیار کیا میرا روزہ بھی قبول فرما اور میرے بھائی نے دوسرا موقف اگر حسن نیت کی بنا پر اختیار کیا ہے، اس کا بھی روزہ قبول فرما۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ