سوال (5481)
ہمارے ملک میں 14 اگست (یومِ آزادی) کے موقع پر بعض لوگ بہت بڑے جھنڈے بنواتے ہیں، جو بعض اوقات سینکڑوں میٹر یا کئی کلومیٹر تک لمبے ہوتے ہیں۔ ان پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، جبکہ ان کا فائدہ صرف ایک دن کی نمائش اور جذباتی اظہار تک محدود ہوتا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ:
1. کیا اس قسم کا خرچ فضول خرچی (إسراف و تبذیر) کے زمرے میں آتا ہے، جبکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
“وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ” (الاعراف: 31)
اور”إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ” (الإسراء: 27)
2. کیا حب الوطنی کے جذبے کا اظہار اس طرح کے مہنگے اور وقتی مظاہروں سے جائز ہے، جبکہ انہی پیسوں سے غریبوں کی مدد، یتیم بچوں کی کفالت یا تعلیمی منصوبوں میں زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے؟
3. کیا نبی ﷺ یا صحابہ کرامؓ کے دور میں کسی خوشی یا موقع پر اتنا زیادہ مال صرف پرچم یا جھنڈوں کی تیاری پر خرچ کرنے کی کوئی مثال ملتی ہے، یا یہ صرف ایک رسم و رواج ہے جو دین میں مشروع نہیں؟
براہ کرم قرآن و سنت اور سلف صالحین کے طریقے کی روشنی میں وضاحت فرمائیں؟جزاکم اللہ خیرا
جواب
اہل علم کا رجحان اس طرف ہے کہ جس طرح سالگرہ منانا صحیح نہیں، اسی طرح ملکی سطح پر بھی حب الوطنی منانا صحیح نہیں، یہ بھی بات وزنی ہے، یہ اس قدر رچ بس گیا ہے، بعض علماء قائل ہو گئے ہیں، باقی اسراف و تبذیر اپنی جگہ پر ہے، موسیقی، اسراف اور مرد و عورت کا اختلاط نہ ہو، ان کی تو اجازت قطعاً نہیں دی جا سکتی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: جشن آزادی منانا کیسا ہے؟
شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ حفظہ
شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا:
جشن آزادی منانا کیسا ہے؟
تو آپ حفظہ اللہ نے جواب دیا:
وطن عزیز کسی نعمت سے کم نہیں، اس سے محبت طبعی امر ہے،وطنیت کے فتنہ سے سے بچتے ہوئے جائز حد تک اس سے محبت اور اس کا اظہار کرنا جائز ہے۔
مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان 14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آیا۔ خاص 14 اگست کو جشن آزادی منانے میں کوئی حرج نہیں۔ تمام قومی وملی، خاندانی اور قبائلی تہوار اور رسومات کا انعقاد جائز ہے، البتہ اگر کوئی تہوار شرعی اُصولوں کے خلاف ہو، تو اسے منانا جائز نہیں۔
یوم آزادی منانا دنیوی عمل ہے، شریعت نے اس سے منع بھی نہیں کیا، لہٰذا شریعت کی حدودوقیود میں رہ کر اس کا انعقاد کیا جاسکتا ہے۔
اگر کوئی کہے کہ مملکت کی سالگرہ منائی جاسکتی ہے، تو انسانوں کی سالگرہ بھی منائی جا سکتی ہے، تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ انسانوں کی سالگرہ منانا نصاریٰ کا مذہبی تہوار ہے، جس کی مخالفت ضروری ہے اور مذہبی اُمور میں ان کی مشابہت جائز نہیں۔ جبکہ یوم آزادی اگرچہ کفار بھی مناتے ہیں، مگر یہ محض دنیوی اَمر ہے۔شریعت کی مخالفت نہ ہو، تو دنیاوی اُمور میں غیر مسلموں سے مشابہت میں کوئی حرج نہیں۔
جشن آزادی کے حوالے سے چند باتیں ملحوظ رکھی جائیں؛ پہلی بات یہ ہے کہ جشن آزادی پر اسراف وتبذیر سے بچا جائے، ملک کا قیمتی سرمایہ ضائع نہ کیا جائے، مشاہدہ ہے کہ ہرسال اربوں روپیہ جشن آزادی کی نذر کردیا جاتا ہے۔ اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔دوسری بات یہ ہے کہ جشن آزادی منانے میں کئی غیر شرعی اُمور سر انجام دیے جاتے ہیں، مثلاً میوزک، ڈھول، باجے، آلات موسیقی پر ملی ترانے، لڑکوں اور لڑکیوں کا ناچ گانا، تصویر کشی اور مردوزن کا اختلاط، وغیرہ۔ اس طرح جشن منانے کی قطعاً اجازت نہیں، یہ شریعت کی مخالفت ہے، اس سے روکنا ضروری ہے۔[فتاویٰ امن پوری، قسط: 215, صفحہ: 1-2]
جواب: جی ہاں مجھے شیخ کے مضمون کا علم ہے، لیکن اسراف، اختلاط اور فضول خرچی کی کبھی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ حفظہ
واللہ المستعان، وطن سے محبت طبعی امر ہے، لیکن ہمیں ماننا پڑے گا کہ آہستہ آہستہ ہم بھی اہل بدعت شانہ بہ شانہ نہ سہی لیکن قریب پہنچ چکے ہیں۔
قرآن واحادیث میں جہالت و لاشعوری کی بنیاد پر تحریف
جھنڈیاں، سبز غبارے اور سبز لائٹس جلانا
ابھی ایک پوسٹ پڑھی کہ وطن سے محبت عقیدے سے محبت ہے۔ تو جھنڈیاں، غبارے اور لائٹیں جلا کر گویا کہ عقیدے سے اظہار محبت کررہے ہیں، تو کل 12 ربیع الاول کے دن اہل بدعت کو کیا جواب دیں گے، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت عین ایمان و عقیدہ ہے تو محبت کے اظہار میں جشن منانے میں کیا حرج۔۔۔؟
فضیلۃ الباحث عبد الرحمن محمدی حفظہ اللہ
پیارے بھائی میں نے محترم شیخ امن پوری کا فتوی دیکھا لیکن پیارے بھائی میرے لئے ان سے بھی بہت بڑے شیخ امام شافعی کا فتوی موجود ہے کہ میری بات بھی قرآن و حدیث کے خلاف ہو تو اسکو دیوار پہ دے ماریں پس جس طرح ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی دین کے لئے بہت زیادہ خدمت ہے انکا کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا البتہ صفات میں ان سے تفویض کے عقیدے کی غلطی ہوئی تو ابن باز رحمہ اللہ کو بھی کہنا پڑ گیا کہ فتح الباری کو پڑھیں مگر فلاں فلاں جگہ پہ انکی بات درست نہیں اسکا خیال رکھنا ہے انہوں نے ابن حجر کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کی صرف اپنی رائے بتائی ہے پس میں بھی شیخ محترم کی شان میں گستاخی نہیں کرتا انکو اپنی رائے رکھنے کا پورا حق ہے لیکن مجھے بھی اپنی رائے پیش کرنے کا پورا حق ہے جو میں نیچے بتاتا ہوں۔
میرے نزدیک جشن آزادی منانا مطلقا حرام ہے جس طرح سالگرہ منانا یا پھر عید میلاد منانا حرام ہے ویسے تو سعودیہ کے تقریبا تمام علما کے فتاوی یوم الوطنی کے خلاف موجود ہیں لیکن میں فتوی کی بجائے دلیل کی بات کرنی ہے۔
میرے نزدیک یا تو جشن آزادی منانا جائز نہیں ہونا چاہئے یا اگر یہ جائز ہو تو پھر سالگرہ منانا اور عید میلاد النبی منانا سب کچھ جائز ہونا چاہئے کیونکہ فرق کی کوئی دلیل نہیں ہے اگر کسی کے پاس فرق کی کوئی ٹھوس دلیل ہے تو للہ مجھے بات کر میری اصلاح لازمی کر دیں۔ جزاکم اللہ خیرا
شیخ محترم امن پوری نے جو دلیل دی ہے کہ آدمی کی سالگرہ نصاری مناتے تھے تو یہ دین کا کام ہے آزادی کی خوشی منانا دین کا کام نہیں ہے تو یہ دلیل درست نہیں ہے کیونکہ اس طرح تو فرعون سے آزادی کی خوشی میں ہی عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا تو آزادی پہ خوشی منانا بھی پھر دین کا کام کیوں نہ ہوا۔
شیخ محترم نے فرمایا تمام قومی وملی، خاندانی اور قبائلی تہوار اور رسومات کا انعقاد جائز ہے تو پھر سالگرہ کو خاندانی رسم سے کیسے نکال رہے ہیں اگر کہیں کہ یہ کفار اپنے دینی تہوار کے طور پہ کرتے تھے تو وہی کفار دینی لحاظ سے خاندانی تہوار اور قومی تہوار بھی مناتے تھے جس پہ رسول اللہ ﷺ نے صرف دو تہوار باقی رکھے اور کہا کہ ان کے تہواروں کی جگہ ہمیں یہ دو تہوار دیئے گئے ہیں پھر باقی ملی و قومی تہوار کیسے جائز ہو گئے۔
دیکھیں کوئی بھی عقل مند کوئی کام کسی مقصد کے بغیر نہیں کرتا پس جب جشن آزادی منانے والوں سے پوچھتے ہیں تمھارا اس جشن منانے کا کیا مقصد ہے تاکہ پتا چلے کہ بدعت ہے یا نہیں تو کہتے ہیں کہ ہماری کوئی عبادت کی نیت نہیں ہوتی صرف ملک سے محبت کی وجہ سے کر رہے ہوتے ہیں ۔تاکہ
1۔ لوگوں میں یہ احساس باقی رہے کہ ملک کی آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔ اور
2۔ لوگوں کے اندر ملک سے محبت کی تذکیر کی جا سکے یا اسکو زندہ کیا جا سکے۔
اس پہ میرا اشکال ہے کہ عید میلاد والی بھی تو یہی کہ سکتے ہیں اور بعض کہتے بھی ہیں کہ ہماری اس میں کوئی عبادت کی نیت نہیں ہوتی بلکہ صرف رسول اللہ ﷺ سے محبت کی وجہ سے کر رہے ہوتے ہیں ۔تاکہ
1۔ لوگوں میں یہ احساس باقی رہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات ہمارے لئے کتنی بڑی نعمت ہے ۔اور
2۔ لوگوں کے اندر رسول اللہ ﷺ سے محبت کی تذکیر کی جا سکے یا اسکو زندہ کیا جا سکے۔
پس خلاصہ یہ ہے کہ سالگرہ بھی اگر دین کا کام ہے تو آزادی پہ عشاورہ کا روزہ رکھ کر خوشی منانا بھی دین کا ہی کام ہے اور اسی لئے عاشورہ کے روزے کی دلیل جشن آزادی والے بھی دے رہے ہوتے ہیں اور میلاد النبی والے بھی اور سالگرہ والے بھی دے رہے ہوتے ہیں پس میرے نزدیک اس سے بچنا بہت ضروری ہے اگر کسی کو اس سے اختلاف ہو تو اسکو اختلاف کا پورا حق ہے۔ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
پیارے بھائی یاد رکھیں وطن سے محبت دو وجہ سے ہوتی ہے۔
ایک فطری یا طبعی محبت جو ہر کسی کو ہوتی ہے اور دوسری ایمانی محبت جو کسی شرعی دلیل کی بنیاد پہ ہوتی ہے ان دونوں میں فرق کرنا بہت ضروری ہے مثلا مدینہ اور مکہ اور فلسطین کی زمین سے ہماری محبت فطری نہیں بلکہ ایمانی محبت ہے کیونکہ اس پہ شرعی دلیل موجود ہے اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی مکہ و مدینہ سے ایمانی محبت بھی تھی اور فطری محبت بھی تھی۔
پس جو ایمانی محبت ہوتی ہے وہ بہت ضروری ہوتی ہے اور جو فطری ہوتی ہے وہ مباح ہوتی ہے یعنی اس پہ کوئی ثواب گناہ نہیں ہوتا ہے۔
پس آپ نے جو لکھا ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہر کسی کا وطن سے محبت عقیدے سے محبت ہے تو یہ درست نہیں ہے یہ بات شاید حدیث حب الوطن من الایمان سے لی گئی ہے جس کو البانی رحمہ اللہ موضوع بتاتے ہوئے عقل کے بھی خلاف سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایمان کیسے ہو سکتا ہے یہ تو مسلمان اور کافر دونوں میں مشترک ہوتی ہے یعنی ملک کا کافر اور مسلمان دونوں اس سے محبت کریں گے۔
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
درست “وطن سے محبت عقیدے سے محبت”
یہ ایک پوسٹ سے نقل شدہ الفاظ ہیں۔
احتجاج البعض للوطنية بقول النبي صلى الله عليه وسلم عن مكة (أحب البقاع إلى الله)
يقول العلاّمة العثيمين رحمه الله في “لقاء الباب المفتوح”: “أما احتجاج بعض دعاة الوطنية بقول الرسول صلى الله عليه وسلم لمكة: (إنكِ أحب البقاع إلى الله) فلا حجة لهم في ذلك؛ لأن الرسول صلى الله عليه وسلم لم يقل: إنك أحب البلاد إليّ، بل قال: (أحب البقاع إلى الله) ولذلك قال: (ولولا أن قومكِ أخرجوني منكِ ما خرجت) فلم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلك من أجل الوطنية وإنما من أجل أن مكة أحب البقاع إلى الله تعالى، وهو صلى الله عليه وسلم يحب ما يحبه الله”.
فضیلۃ الباحث عبد الرحمن محمدی حفظہ اللہ
جی اسی لئے میں نے کہا تھا کہ مکہ سے محبت پہ شرعی دلیل بھی موجود ہے تو اس سے محبت ایمان کا حصہ ہو گی۔
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
آج پاکستانی مذہبی لوگوں کی ذمہ داری تھی خود کو محبِ وطن ثابت کرنے کی، کل پڑوس والے اپنے مدارس میں یہ فریضہ سر انجام دیں گے۔
حالات کا جبر ہے، ورنہ اہل علم اس قسم کی خرافات سے بچتے اور ان کا رد کرتے آئے ہیں۔
لغت سے بعض اقوال دھڑا دھڑ شیئر کیے جاتے ہیں کہ وطن سے محبت ایک فطری چیز ہے، حالانکہ جس وطن کی محبت فطری چيز ہے وہ اپنا گھر اور علاقہ ہوتا ہے، جدید ریاست کی بنیاد پر محبت و نفرت دین کا تقاضا ہے نہ فطرت کا.
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ و مدینہ سے پے پناہ محبت تھی، لیکن کبھی یومِ آزادی یا یوم فتح یا یوم وفا منایا ہو؟
اللہ کا بہت شکر ہے کہ کچھ مسلمانوں کے پاس پاکستان کا مطلب کیا لا الہ إلا اللہ جیسے نعرے موجود ہیں… ورنہ دلیلیں تو ہندوستان والوں نے بھی گھڑ رکھی ہیں…!
جس زمانے میں اللہ، اس کے رسول، شعائر اسلام سے لوگ بغاوت کر رہے ہیں، وہاں پرچم کو سیلیوٹ اور بوسوں کو فطرت بنا کر پیش کرنا عجیب بات ہے۔
جن اہلِ اسلام نے پوری دنیا کو کھوٹے کھرے کا تصور دیا، تشبہ بالکفار کی بحثیں سمجھائیں، ولاء و براء کے اصول سکھائے، آج انہیں کی طرف سے اس قسم کی بدعات و خرافات کو ’عین فطرت‘ قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔وجہ صرف ایک کہ عالمی طاقتوں کی طرف سے اسے وفاداری کی دلیل بنا کر پیش کیا گیا ہے، اگر کوئی یہ نہ کرے تو غدار یا خارجی سمجھا جائے گا۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
وطن سے محبت ایک فطری جذبہ یا منطقی مغالطہ
وطن سے محبت کے تناظر میں گفتگو چل رہی ہے تو اس ذیل میں ایک نکتہ مدنظر رکھنا مفید ہو سکتا ہے۔
انسان جس جگہ پیدا ہوتا یے، پرورش پاتا ہے، رہائش رکھتا ہے، جہاں سے اس کی یادیں جڑی ہوتی ہیں اس جگہ سے اسے عموما محبت ہوتی ہے اور یہ والی محبت قدرتی یا فطری ہے۔ یہ ایک جذباتی لگائو ہے جو اختیار سے باہر ہے اور اسے سکھائے جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ہم روزمرہ کی زندگی میں اس کا مشاہدہ اور تجربہ کرتے ہیں۔ ہم اپنے شہر، گائوں یا قصبے سے دور گئے ہوں اور واپس آئیں تو ایک قدرتی خوشی محسوس ہوتی ہے۔
اس محبت کو دلیل بنا کر وطن سے محبت کو فطری کہنا بذات خود ایک منطقی مغالطہ ہے۔ (وطن سے مراد ریاست کا وہ تصور جو اٹھارویں اور انیسویں صدی میں یورپی مفکرین نے دیا، جس کی بنیاد پر آج کی ریاستیں قائم ہیں۔ اس سے پہلے یہ والا تصور وطن غیر موجود تھا نتیجتا ایسی کسی وطنی محبت کا بھی کوئی وجود نہیں تھا)
ریاست عموما ایک وسیع علاقے، کئی طرح کی ثقافتوں، مختلف نسلی و لسانی گروہوں اور متنوع جغرافیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
انسان کو وسیع اور انجان علاقے، مختلف نسلوں اور دور دراز شہروں سے فطری محبت کبھی بھی نہیں ہو سکتی۔ پنجاب کے کسی گائوں کا رہنے والا تھر پار کر کی کسی گوٹھ سے کبھی بھی جذباتی لگائو اور فطری محبت نہیں کر سکتا۔ بلکہ اسے وہاں رہنا پڑے تو شاید اچھی خاصی تنگی محسوس کرے گا۔
ریاست سے محبت فطری نہیں ہوتی بلکہ فرد کو سکھائی جاتی ہے، حکومتیں، ریاستی ادارے، میڈیا اور نظام تعلیم فرد کے شعور حاصل کرنے سے پہلے ہی وطن سے محبت اس کے اندر انڈیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ ریاست چاہتی ہے کہ افراد اس کی پالیسیوں سے شعوری اختلاف نا کریں، اسی لیے ریاست سے محبت کو افراد کے لاشعور میں ٹھونک دیا جاتا ہے۔ ریاست کو اپنے افراد کی مکمل وفاداری اور اطاعت کی ضرورت ہوتی ہے فرد کو ریاست کا مطیع بنائے رکھنے کے لیے حب الوطنی کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے، اور محبت کا یہ سبق ہر فرد کو رٹوایا جاتا ہے اور مسلسل دہرایا جاتا ہے۔ پھر بھی اگر کوئی فرد کسی بھی بنا پر وطن سے محبت کرنے میں ناکام ہو جائے تو وطن اپنی پوری قوت کے ساتھ اس پر چڑھ دوڑتا ہے، ایسے شخص یا اشخاص کی نسلیں برباد کر دی جاتی ہیں۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر، چائنا کے صوبہ سنکیانگ کے مسلمان اور بشار الاسد حکومت میں سنی مسلمانوں کی حالت زار اسی خون آشام رویے کی مثالیں ہیں۔ اس لیے یہ ایک فطری نہیں بلکہ سیاسی عمل ہے۔ لہذا فطری محبت کو ریاستی محبت پر قیاس کرنا ایک غلط تعبیر ہے۔
فضیلۃ الباحث انس حفظہ اللہ