بسم الله و الحمد لله و الصلاة والسلام على رسول الله
ایام و ماہ اور سال و صدیاں اللہ تعالی کی حکمتِ بالغہ اور تخلیقِ کاملہ کا شاہکار ہیں کہ نظامِ عالم ایک خاص ترتیب سے جاری و ساری ہے، پھر مزید رحمتِ الہی یہ ہے کہ نہ تو دنوں میں سے کوئی دن منحوس یا برا ہے اور نہ مہینوں میں سے کوئی مہینہ، لیکن ہمارے ہاں ایک خاص طریقہ ایجاد ہوا ہے جس میں کسی دن کو یومِ سیاہ / بلیک ڈے وغیرہ قرار دے دیا جاتا ہے پھر اسے ہر سال منایا جاتا ہے، اس سلسلے میں ہمیں دو باتیں مد نظر رکھنی چاہیئں
پہلی بات تو یہ کہ کسی دن کے متعلق خبر دیتے ہوئے کہہ دینا کہ فلاں دن برا گزرا یا فلاں دن کسی کے لیے پریشانی والا تھا وغیرہ تو اس میں ایک حد تک جواز کا پہلو نکلتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے عذاب کے دنوں کو ”ایام نحسات“ کہا، لوط علیہ السلام نے ایک دن کو ”يوم عصيب“ کہا ، لیکن یہ بھی عین لازم ہے کہ کسی ایک انسان کے لیے کوئی دن بڑا پریشان کن گزرا ہو جبکہ وہی دن دوسرے کے لیے خیر و برکت کا باعث بنا ہو. (مزید تفصیل دیکھئے : مفتاح دار السعادة لابن القيم : 2/ 194، مجموع فتاوی الشيخ ابن عثيمين : 10/ 823)
البتہ سال کے کسی مقررہ دن یا ماہ کو اس لیے “منحوس” یا “یومِ سیاہ” قرار دینا کہ اس میں آپ کو کوئی مصیبت یا تکلیف پہنچی تھی، پھر اس کو ایک منحوس دن یا ماہ کی حیثیت سے یاد کرنا تو یہ سراسر حرام اور ناجائز ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے زمانے کو گالی دینے سے منع فرمایا بلکہ اسے اللہ تعالی کو برا بھلا کہنے کے مترادف قرار دیا. (البخاري :7491، مسلم : 2246) اسی طرح جاہلیت میں منحوس سمجھے جانے والے ماہِ صفر کی نحوست کی نفی کی گئی (البخاري : 5776، مسلم : 2224) اور اس سے بڑھ کر اگر عقیدہ ہی یہ بن جائے کہ کوئی دن یا سال ہمارا نفع و نقصان کر سکتا ہے تو یہ شرک ہے، کیوں کہ نفع و نقصان کے مالک صرف اللہ تعالی ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ کسی کی وفات یا شہادت کے خاص دن کو ہر سال بطورِ یومِ سیاہ منانا، اس دن غم کا اظہار کرنا، خاص قسم کے پیغامات اور پوسٹیں شیئر کرنا، نوحہ گری یا اس قسم کے ترانے بجانا، تقریبات منعقد کرنا، یہ تمام چیزیں برسی منانے کی ہی ایک قسم ہے، جو کہ اسلام کا ہرگز ہرگز مزاج نہیں، کوئی شک نہیں کہ کسی تکلیف پر انسان کو فطری طور پر رنج و دکھ پہنچتا ہے، کبھی غم ایسا ہوتا ہے کہ دل ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے لیکن مسلمان مصیبت و پریشانی کو اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش سمجھتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں بیسیوں پریشانیوں و تکالیف، شہادتوں اور اموات کے دن گزرے، آپ نے کسی بھی دن کو سالانہ یاد گار قرار نہیں دیا، فطری اور طبعی طور پر دل غمگین یا پریشان ضرور ہوتا ہے لیکن ہر سال ایک خاص طریقے سے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلانا، پوسٹنگ کرنا یہ یقینا برسی منانے کا ایک جدید طریقہ ہے، اس سے غم کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہے اور بار بار یاد کرنے سے تازہ ہوتا رہتا ہے، اب تو بد قسمتی سے خالص مذہبی اور سنجیدہ طبقہ بھی اس قباحت سے آلودہ ہو چکا ہے، اللہ تعالی ہمیں محفوظ فرمائے۔آمین۔
نوٹ
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ عوام الناس اور بعض مؤرخین وغیرہ کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اور ابو طالب کی وفات کے سال کو عام الحزن (غموں کا سال) قرار دیا تھا، یہ بات بالکل بے بنیاد و بے اصل ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں، اور نہ ہی اس کا کوئی ثبوت ہے، بفرضِ محال اگر اسے درست مان بھی لیا جائے تو کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہر سال اپنی بیوی وچچا کا غم منایا کرتے تھے؟ ہرگز نہیں، اس لیے کہ یہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کا مزاج نہیں ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے۔
حافظ محمد طاھر