سوال (1688)

زید نے فاطمہ سے شادی کی ہے ، فاطمہ اپنے والدین کے گھر رہتی تھی ، کسی ناچاقی پر فاطمہ کے بھائیوں نے زید کو بلایا اور زبردستی مار پیٹ اور گن پوائنٹ پر طلاق لی اور اس کی ویڈیو بھی بنائی ہے ، زید نے جان بچانے کی وجہ سے طلاق دی ہے اور زید ان سے بچ کر واپس آیا اور بیوی کو مسیج کیا کہ میں نے طلاق نہیں دی ہے اور زبردستی کی طلاق نہیں ہوتی ہے ، اب بھی زید اس کو طلاق نہیں دینا چاہتا ، حالانکہ زید خود بھی عالم ہے ، اس حوالے سے شریعت کیا کہتی ہے ؟

جواب

اکراہ کی شرائط :
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اکراہ کی تعریف اور اسکی شرطوں کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
“الاکراہ ھو إلزام الغیر بما لا یریدہ”
یعنی اکراہ کا مفہوم یہ ہے کہ غیر کو اس چیز پر مجبور کر دینا جس کو وہ چاہتا نہ ہو ۔
شروط الاکراہ اربعة

الأول :
أن یکون فاعلة قادر ا علی ایقاع ما یھدد به والمامور عاجزا عن قع ولو بالفرار
[ابن ماجة باب طلاق المکرہ والناسی ص147وحسنه النووی]

فاعل (دھمکانے والے ) نے جس سزا کی دھمکی دی ہے : اس کے وقوع پر قادر ہو اور مامور جس کو دھمکی دی گئی ہو اس کے دفاع سے بالکل عاجز ہو حتی کہ وہ وہاں سے فرار بھی نہ ہو سکتا ہو۔

الثانی:
أن یغلب علی ظنه أنه إذا امتنع اوقع بذالک

مامور کا ظن غالب ہو کہ جب اس نے فاعل کا مطالبہ پورا نہ کیا تو سزا مل کر رہے گی ۔

الثالث:
أن یکون ماھدد به فوریا فلو قال إن لم تفعل کذا ضربتک غدا لا یعد مکرھا ویستثنی ٰ ما اذا ذکر زمنا قریبا أو جرت العادۃ بأنه لا یخلف

جس سزا کی دھمکی دی ہے ہو اس کا وقوع فوری ہو ۔ اگر یوں کہا تو نے اس طرح نہ کیا تو تجھے کل سزا دوں گا تو یہ شخص مکرہ تصور نہ ہوگا ۔ مگر قریبی زمانہ اس سے مستثنی ٰ ہے ۔ یا فاعل کی عادت معلوم ہو کہ جو اس نے کہا ہے اس خلاف نہیں کرے گا۔

الرابع:
أن لا یظھر من المامور ما یدل علی اختیاره
[فتح البار ی کتاب الاکراہ ج : 12 ص: 385]

مامور سے کسی ایسی بات کا اظہار نہ ہو جو اس کے اختیار پر دلالت کر رہی ہو ۔ جس شخص میں یہ چار شرطین موجود ہوں گی وہ شرعی مکرہ ہو گا ورنہ نہیں ۔
مکرہ (مجبور ) انسان کی طلاق کے وقوع اور عدم وقوع میں فقہاء کے ہاں اختلاف ہے ، جمہور کے نزدیک مکرہ کی ( جس کی گردن پر تیز دھار آلہ قتل یا گن پوائنٹ ) کی طلاق واقع نہیں ہوتی جب کہ فقہائے احناف کے نزدیک مکرہ کی طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔۔
ادلہ کی بنیاد پر جمہور کا موقف راجح ہے۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ