سوال (5206)

کیا نکاح بالجبر ہو جاتا ہے؟ اگر زبردستی گن پوائنٹ پے یا جیسے بھی ہو گیا تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

یہ نکاح باطل اور ظلم کی بدترین مثال ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

شیخ ابن باز، شیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ نے اس نکاح کو حرام قرار دیا ہے، اس طرح شیخ صلاح المنجد نے بھی اس نکاح کو حرام کہا ہے، جس نکاح میں لڑکی کے اوپر جبر کیا گیا ہو، کیونکہ یہ حدیث کے مخالف ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک لڑکی نے اس بارے میں پوچھا کہ میرے والد نے جبراً میرا نکاح کردیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ آپ چاہیں تو اس کو فسخ کر سکتی ہیں، اس نے کہا ہے کہ نہیں میں جاننا چاہتی تھی کہ اس میں میرا اختیار ہے یا نہیں، یہ نکاح فاسد ہوگا، ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی اس نکاح کو فاسد کہا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: کیا صرف عورت کا نکاح بالجبر نہیں ہوتا ہے، اگر مرد پر بھی جبر کیا جائے، وہ اسے دل سے قبول نہ کرتا ہو، کیا وہ اس میں شامل نہیں ہوگا؟
جواب: صغیرہ اور صغیر کا اعتبار نہیں ہے، یہ تو سو فیصد والدین کے تابع ہوتے ہیں، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا نکاح ہوا تھا، اس حال میں کہ سیدہ چھوٹی تھی، سیدہ سے پوچھا نہیں گیا تھا، تو صغیرہ اور صغیر کا والد نکاح کرا سکتا ہے، لیکن بڑے ہونے کے بعد ان کے پاس اختیار ہوگا، لیکن اس میں اختلاف ہے، جبر تو لڑکے پر بھی ہے، لیکن لڑکا اپنے نفس کا خود وکیل ہوتا ہے، یہ بھی نہیں ہے کہ اپنے آپ کو والدین سے آزاد سمجھے، جیسا کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کو کہا تھا کہ آپ اپنی بیوی کو طلاق دے دو، سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو کہا تھا کہ اپنی چوکھٹ تبدیل کردے، لہذا نہ بچے کو آزادی دی جا سکتی ہے، اور نہ والدین کو جبر کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: لیکن شیخ بالفرض مرد پر اتنا جبر کیا گیا پورے خاندان کی طرف سے اسے اکیلے کو چھوڑ دیا گیا، مرد ایک فیصد بھی اس رشتے کو قبول نہیں کرتا، مگر دباؤ پریشر اتنا کے زبردستی نکاح کروایا گیا آیا وہ نکاح ہوا کے نہیں؟
جواب: نکاح تو بہرحال ہو گیا ہے، لیکن اس کی مردانگی پر حرف آ سکتا ہے، کیسا مرد ہے کہ نا نہ کر سکا ہے، ممکن ہے کہ والدین کے دباؤ میں آگیا ہو، ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے، اگر وہ والدین کے حق میں دستبردار ہوگیا ہے تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے؟

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ