سوال (4598)

ضعیف احادیث بیان کرنا کیسا ہے؟

جواب

اگر بہت پیچھے جا کر تحقیق کریں تو اہل علم نے اپنی کتابوں میں ضعیف روایات کو کیوں جگہ دی ہے، وہ اس لیے ذکر کرتے تھے کہ کوئی روایت سند کے ساتھ کسی نے دیانت کے ساتھ ذکر کردی ہے تو بری الذمہ ہوجاتا تھا، اس لیے وہ ذکر کرتے تھے، اس لیے جو ان کو سند کے ساتھ دستیاب ہوا تو انہوں نے ذکر کردیا ہے، سند جیسی بھی تھی، اس نے سند دے دی ہے، اب آگے والا شخص دیکھ لے، دوسرا یہ ہے کہ سند کے ساتھ اس لیے بیان کرتے تھے کہ بعد میں آنے والا کسی کو دھوکہ نہ دے سکے، سند وغیرہ چینج کرکے اس کو صحیح قرار نہ دے، یہ اچھا ہوا ہے کہ ہر چیز سامنے آگئی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ علماء کا عوام کو ضعیف روایات کو بیان کرنا کیسا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ روایت عقیدے کے معاملے میں شدید ضعف نہ ہو، اس سے کسی مسنون عمل کی نفی نہ ہو رہی ہو، مزید یہ ہے کہ اس کے طرق واضح کردیے جائیں، واضح بیان کردیا جائے کہ اس میں یہ کلام ہے، اس درجے کا کلام ہے، اس روایت کو واضح طور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ کیا جائے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

1: ضعیف روایت نا اعمال میں حجت ہے نا ہی فضائل میں۔
2: ضعیف روایت کو بطور دلیل بیان نہیں کیا جاسکتا۔
3: اگر کوئی روایت سندا ضعیف ہو لیکن اس کا معنی قرآن، حدیث، یا کسی صحابی کے اثر سے واضح ہورہا ہو تو اس روایت کو تو ضعیف ہی کہیں گے لیکن ساتھ میں وضاحت کردی جائے گی کہ یہ روایت سندا ضعیف ہے لیکن اس کا معنی فلاں دلائل/ قرائن کی وجہ سے صحیح ہے۔
اگر اعتراض لجنة العلماء، کے لوگو پر ہو تو یاد رکھیں اس میں نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نہیں بلکہ مطلقا “العلماء ورثة الانبیاء” لکھا ہے۔ جیسا کہ بخاری#67 میں تعلیقا درج ہے.

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ