سوال (5295)
ضعیف اسناد سے منقول وظائف اور اذکار کرنا کیسا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عصر کے بعد ظہر والی دو رکعات پڑھی تھیں، ان کے پیش نظر عصر کے بعد دو رکعات پڑھنا معمول بنایا جا سکتا ہے؟
جواب
“ضعیف روایات کے بارے میں محدثین اور اہلِ علم نے اصول بیان کر دیے ہیں۔ کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ ہم صحیح روایات پر عمل کریں۔ لیکن اگر کوئی وظیفہ ایسا ہو جس کے الفاظ میں کوئی غلطی نہ ہو، عقیدے کے خلاف کوئی بات نہ ہو، حدیث کی مخالفت بھی نہ ہو، اور اگر اس میں ضعف بھی ہو لیکن وہ کم درجے کا ہو، اور ترغیب کی حدیث ہو، تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں۔
البتہ اگر کسی محفل یا درس میں اسے بیان کیا جائے، تو اس کے ضعف کا ذکر بھی کرنا ضروری ہے۔ ایسی روایت کو براہِ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ کیا جائے۔
جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عصر کے بعد دو رکعت ادا کرنے کی بات ہے، بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ کسی خاص واقعے کی وجہ سے تھا، یعنی وہ نماز قضا تھی، اور قضا نماز عصر کے بعد ادا کی جا سکتی ہے۔ یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔ عصر کے بعد دو رکعت ویسے بھی ثابت ہیں، جیسے کہ صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ جب سورج بلند ہو تو دو رکعت نماز پڑھنا ثابت ہے، تو اُسے اپنایا جائے۔
لیکن بات یہ ہے کہ جس طرح سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کسی کو عصر کے بعد نماز پڑھتے دیکھا، تو انھوں نے روکا اور سمجھایا کہ یہ طریقہ درست نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اشارہ کسی روایت میں آیا ہو تو اُس کو دلیل نہ بنایا جائے۔ اگر جواز ہو تو اُسے جواز کی حد تک، اُسے لازم یا مستقل عمل نہ بنا لیا جائے۔”
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ