جب ہم اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی بات کرتے ہیں، تو ایک طبقہ بڑی معصومیت سے سوال اٹھاتا ہے:
“بھئی! پاکستانی چیزوں کا ٹیسٹ ہی اچھا نہیں ہوتا، معیار کمزور ہوتا ہے۔”
یہ اعتراض بظاہر سادہ ہے، مگر درحقیقت یہ اُس فکری غلامی کا اظہار ہے جسے سرمایہ دارانہ نظام نے بڑی مہارت سے ہمارے اذہان میں اتار دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ذائقے اور معیار کی تعریف طے کون کرے گا؟ کون سا ادارہ اور کون سی قوم یہ بتائے گی کہ “عالمی معیار” یہ ہوتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ معیار ایک نفسیاتی تاثر ہے اور ذائقہ محض ایک احساس ہے۔ ممکن ہے ایک بندہ لوگوں کے دیکھا دیکھی پیپسی اور کوک کو معیاری سمجھتا ہو جبکہ اس بندے کا اپنا کوئی ذوق ہی نہ ہو اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ ایک باذوق شخص کو نیکسٹ کولا یا گورمے اچھی لگتی ہو۔ اب کیا ایک باذوق انسان کے ٹیسٹ کو محض اس لیے غیر معیاری قرار دے دیا جائے کہ اسے لوکل مشروب پسند ہے؟
ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کروڑوں ڈالر صرف اس لیے خرچ کیے کہ ہمارے اذہان کو اس بات پر قائل کیا جا سکے کہ “جو کچھ ہم بنائیں وہی بہترین ہے، باقی سب کمتر ہے۔”
ٹی وی اسکرینوں، بل بورڈز، فلموں اور سوشل میڈیا کی چکاچوند نے ہماری حسِ انتخاب کو سلب کر لیا، یہاں تک کہ ہم خود اپنی مصنوعات کو حقارت سے دیکھنے لگے۔
یاد رکھیں! یہ محض اشیاء کی خرید و فروخت کا مسئلہ نہیں، یہ اذہان کی جنگ ہے، یہ ذہنی آزادی اور فکری خودمختاری کا امتحان ہے۔ اگر ہم بائیکاٹ کو صرف ذائقے یا پیکیجنگ کے پیمانے پر پرکھیں گے تو ہم اس سچ کو جھٹلا دیں گے کہ فلسطینی بچوں کے خون سے رنگی ہوئی معیشت کو سہارا دینا ہمارا اخلاقی جرم ہے۔
کیا ہم ان کی مصنوعات کو صرف اس لیے ترک نہ کریں کہ انہوں نے ہمارے اپاہج ذہنوں کو اس پر قائل کر لیا ہے کہ تمہاری مصنوعات ہمارے لیول کی ہو ہی نہیں سکتیں۔
یقیناً ہو سکتی ہیں! مگر اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ پر اعتماد بحال کرنا ہوگا، غیروں کے سیٹ کردہ اپنے ذوق کی غلامی سے نکلنا ہوگا اور یہ ماننا ہوگا کہ ذائقہ وہی بہتر ہے جو مظلوموں کے خون سے پاک ہو۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے ضمیر کی آواز سنیں۔ ذائقے اور معیار کی بحث کو پیچھے چھوڑیں اور صرف یہ سوچیں کہ ہمارا پیسہ کس کی گولی میں تبدیل ہو رہا ہے اور کس کا جگر چھلنی کر رہا ہے؟!
#بائیکاٹ
(فیض اللہ ناصر)