سوال (4088)

ایک شخص وہ رمضان المبارک کے مہینے میں اپنی زکاۃ ادا کرتا ہے اور اس کو اس رقم کو مستحقین میں تقسیم کرتے کرتے تقریبا پورا مہینہ لگ جاتا ہے، کیا اس طرح تاخیر کرنا درست ہے؟

جواب

1. فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ
سوال: اگر کسی شخص نے زکاة نکالنے کا وقت معلوم کرلیا ہو لیکن وہ فوراً زکاة ادا نہ کرے بلکہ چند دن یا مہینہ بعد ادا کرے، تو کیا حکم ہے؟

جواب: “جب زکاة کا وقت آجائے تو اس میں تاخیر کرنا جائز نہیں، سوائے اس کے کہ کوئی شرعی عذر ہو، جیسے مستحق نہ مل رہا ہو، یا مال کی تقسیم میں کچھ وقت لگ رہا ہو۔ ایسی صورت میں کچھ دنوں کی تاخیر جائز ہے۔ لیکن بلا عذر تاخیر کرنا جائز نہیں اور گناہ کا باعث ہے۔” (فتاوى نور على الدرب، الشیخ ابن باز)
2. الشیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ (اہل حدیث سلفی علما میں شمار)
“إذا وجبت الزكاة على الإنسان فإنه يجب عليه إخراجها فورًا، ولا يجوز تأخيرها إلا لضرورة، مثل أن لا يجد فقراء، أو تكون الأموال في بلد وهو في بلد آخر…”
ترجمہ: جب زکاة واجب ہو جائے تو اس پر فوراً ادا کرنا لازم ہے، اور بغیر کسی ضرورت یا عذر کے تاخیر جائز نہیں، جیسے مستحق نہ ملنا یا رقم کسی اور جگہ ہونا وغیرہ۔ (الشرح الممتع، جلد 6، ص 149)
3. فتویٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء (سعودی اہل حدیث ادارہ)
سوال: رمضان میں زکاة نکال لی جاتی ہے، لیکن مستحقین کو دینے میں کچھ دن لگتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟

جواب: “لا حرج في تأخير توزيع الزكاة أيامًا يسيرة بعد حولان الحول إذا كان ذلك لمصلحة إيصالها إلى المستحقين.”
ترجمہ: زکاة کی تقسیم میں چند دن کی تاخیر اگر اس نیت سے ہو کہ صحیح مستحقین کو دی جا سکے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (اللجنة الدائمة، فتوى نمبر: 19969)
خلاصہ: زکاة واجب ہونے کے بعد فوراً ادا کرنا اصل حکم ہے۔
اگر مستحقین کی تلاش، حفاظت، یا تقسیم کی وجہ سے تاخیر ہو تو یہ جائز ہے۔ بغیر کسی شرعی عذر کے تاخیر ناجائز اور معصیت شمار ہوگی۔

فضیلۃ العالم فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ