سوال
کیا زکاۃ کے پیسوں سے مدرسے میں قرآنِ کریم یا ہسپتال میں وہیل چیئر رکھوائی جا سکتی ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اللہ تعالی نے قرآنِ کریم میں زکاۃ کے مصاف متعین فرما دیے ہیں:
“إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ”. [التوبة:60]
صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے] عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
قرآن کریم وقف کرنا یا ہسپتال کی ضروریات پوری کرنا یہ ایک عظیم عمل ہے، لیکن اس کے لیے زکاۃ کے پیسوں کی بجائے دیگر مال کو خرچ کیا جائے۔ آیتِ زکاۃ (اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِينِ …) میں ’لام‘ تملیک کے لیے ہے، یعنی جو رقم زکوۃ کی نکالیں اس رقم کا مستحقین کو مالک بنائیں، تاکہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق اس سے جو مرضی خریدیں۔ اگر زکاۃ کے مستحقین قرآن کی ضرورت محسوس کریں یا وہیل چیئر کی ضرورت محسوس کریں گے، یا انہیں راشن کی ضرورت ہوگی، یا کپڑے لینا چاہتے ہوں گے، یا انہیں واٹر پمپ اور کنویں کی ضرورت ہو گی تو وہ خود اس پر یہ رقم استعمال کر لیں گے۔
مستحقین کے مال میں اپنی مرضی سے تصرف کرنا جائز نہیں ہے!
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ