سوال

ہماری بہن کی ایک جگہ شادی ہوئی ہے، ان کے مالی حالات زیادہ بہتر نہیں ہیں۔ ہم ان کو مختلف مواقع پر سپورٹ کرتے رہتے ہیں، ان کو حج بھی کروایا۔ حال ہی میں بہن نے کہا کہ ہمارا عمرہ کرنے کو دل چاہتا ہے.. تو بہن بہنوئی کو تین بچوں سمیت عمرہ بھی کروایا۔

کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں کہ تمام اخراجات کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے، چار حصے زکاۃ کی مد میں شمار کر لیے جائیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اگر بہن بھائی مستحقین زکوۃ میں سے ہوں تو انکو بلاشبہ زکوۃ دینا صحیح ہے کیونکہ فقراء و مساکین زکوۃ کے اولین مستحق ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

“اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَالۡعٰمِلِيۡنَ عَلَيۡهَا وَالۡمُؤَلَّـفَةِ قُلُوۡبُهُمۡ وَفِى الرِّقَابِ وَالۡغٰرِمِيۡنَ وَفِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ‌ؕ فَرِيۡضَةً مِّنَ اللّٰهِ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ”. [التوبة: 60]

’’صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور ان پر مقرر عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر میں (خرچ کرنے کے لیے ہیں)۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے‘‘۔

لیکن زکوۃ کے پیسوں سے کسی کو عمرہ کروانا مصارف زکوۃ میں سے نہیں ہے۔ لہذا فقراء و مساکین جنکے جائز شرعی اخراجات انکی آمدنی سے زیادہ ہوں انکو محروم کر کے کسی اور کو عمرہ کے لیے زکوۃ دینا جائز اور درست نہیں ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ