سوال (912)

زکاۃ کے پیسوں سے راشن لے کر مستحقین کو دے سکتے ہیں یا پھر پیسے ہی دینا ضروری ہیں ؟

جواب

راشن دینا درست نہیں ہے ۔ بلکہ رقم اس کے سپرد کی جائے گی ۔

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ

اس میں تفصیل ہے۔
(1) : زکاة کا مال مذکورة مستحقین کا حق ہے اور وہ اپنے حق کا استعمال زیادہ جانتے ہیں اس لئے زکاة غذائی راشن کی صورت نکالنا درست نہیں ہے ، آپ کو اپنی مرضی کے مطابق تصرف کا حق نہیں ہے ۔
[اللقاء الشهري ابن العثیمین رحمہ اللہ]
دوسری جگہ فرماتے ہیں ایسا درست نہیں بہرحال اگر فقیر آپ کو وکیل بنا دے کہ مجھے فلاں فلاں چیز لے کر دے دیجئے تو کوئی حرج نہیں
[فتاوی و رسائل ابن العثیمین]
(2) : بعض صورتوں میں اس کا جواز ہے اسی کو ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فتاوی میں اختیار کیا ہے۔
مثلا کوئی معین مستحق ہے جو خاص اشیاء مثلا دوائی یا غذائی راشن کا مستحق ہے اور آپ کو اغلب گمان ہے کہ وہ اسے ایسے طریق پر صرف کرے گا جس میں واضح مفسدہ ہے یا ایسی مصلحت ہے جو ضائع کرتی ہے کہ فقیر کو نقدی عطاء کرنے میں مفسدہ ہے۔
اسی طرح ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں مثلا فقیر مجنون ہے ضعیف العقل ہے تصرف مالی صحیح سے نہیں جانتا یا وہ پیسے کے ساتھ کھیلے گا تو مصلحت اس میں ہے کہ اسے غذائی مواد یا لباس وغیرہ دیا جائے جو اسے نفع دے
ایسا ہی فتویٰ ابن العثیمین رحمہ اللہ کا ہے۔
بہرحال نقود کے بدلے دیگر اجزاء مثلا غذا،ادویات یا لباس وغیرہ کی صورت میں زکاة نکالنا درست نہیں الا یہ کہ کوئی راجح مصلحت ہو ۔
اس کے تعین کے لئے علاقائی علماء سے فتویٰ لیا جا سکتا ہے آیا اس خاص امر میں مصلحت ہے یا نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ