سوال (2665)
کسی کے پاس کروڑ روپے کی کرنسی ہے، اس پر زکوة فرض ہے، اگر وہ ہیرے جواہرات کا زیور بنا لے جو تجارت کی غرض سے نہ ہو تو کیا اس پر زکوة فرض ہوگی کہ نہیں؟ اگر ہوگی تو کس دلیل سے اور اگر نہیں تو کیوں؟
جواب
قرآن مجید اور احادیث سے جواب چاہیے۔
پہلی بات تو یہ ہے اگر وہ زکوۃ سے بچنے کے لیے ایسا کرتا ہے تو یہ حیلہ سازی ہے لہذا اس عمل کو قطعاً درست نہیں کہا جائے گا، دوسری بات یہ ہے کہ ہیرے جواہرات وغیرہ اگر تجارت کیلئے رکھے ہوں تو پھر بلا اختلاف اموال تجارت کی طرح ان پربھی زکوٰۃ فرض ہوگی لیکن اگر یہ ذاتی استعمال (مثلاً زیب و زینت کے لئے) یا کاروباری آلات کے لئے استعمال ہوں تو پھر بلا نزاع ان پر کوئی زکوٰۃ نہیں، خواہ یہ کتنے ہی قیمتی کیوں نہ ہوں۔ جیسا کہ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ:
”لا کوٰة فیما سوی الذھب والفضة من الجواھر کالیاقوت والفیروزج، واللؤلؤ والمرجان والزمرد والزبرجد والحدید والصفر وسائر النحاس والزجاج وإن حسنت صنعھا وکثرت قیمتھا ولازکوٰة أیضاً في المسك والعنبر وبه قال جماھیر العلماء من السلف وغیرهم”
[المجموع شرح المذہب: ج۵ص۴۶۴]
اسی طرح ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ:
”فالزکوٰة في الحلی من الذھب والفضة دون الجوھر لأنھا لا زکوٰة فیھا عند أحد من أھل العلم فإن کان الحلی للتجارة قومه بما فیه من الجواھر لأن الجواھر لوکانت مفردة وھي للتجارة لقومت وزکیت”
[المغنی: ج۴؍ص۲۲۴ نیز دیکھئے الفقہ علی المذاہب الأربعۃ:ج ۱؍ ص ۵۹۵، موسوعۃ الاجماع: ۱؍۴۶۷]
مذکورہ بالا اقتباسات کا حاصل یہ ہے کہ ہر طرح کے قیمتی موتی اور جملہ عطریات زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں بشرطیکہ یہ تجارت کے لیے نہ ہوں اور جمہور ائمہ سلف کا شروع سے یہی موقف رہا ہے۔ باقی رہا جواہرات کو سونے چاندی کے زیورات پر قیاس کرنے کا مسئلہ تو یہ قیاس درست نہیں، اس لئے کہ زیورات میں استعمال ہونے والا سونا چاندی نقدی اور نموکی حیثیت بھی رکھتا ہے جبکہ ہیرے جواہرات میں یہ خاصیت نہیں پائی جاتی۔ اسی لئے متقدمین میں سے جو اہل علم زیورات پر زکوٰۃ کے قائل رہے ہیں، ان میں سے کسی نے بھی انہیں زیورات پر قیاس نہیں کیا۔ تقریباً یہی رائے ابن حجر کی بھی ہے، دیکھئے
[فتح الباری: ج۳؍ص۳۶۳ اور حنفیہ کا بھی یہی موقف ہے، دیکھئے درّمختار: ج۲ ؍ص۲۷۳ اور فتاویٰ ہندیہ :۱]
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ