سوال (3589)
زمین سے آسمان کا فاصلہ کتنا ہے؟
جواب
اس حوالے سے حدیث موجود ہے:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْوَاسِطِيُّ، قَالَ: ثنا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: ثنا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: مَا بَيْنَ كُلِّ سَمَاءٍ إِلَى أُخْرَى مَسِيرَةَ خَمْسِمِائَةِ *عَامٍ، وَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ مَسِيرَةُ خَمْسِمِائَةِ عَامٍ، وَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ إِلَى الْكُرْسِيِّ مَسِيرَةَ خَمْسِمِائَةِ عَامٍ، وَمَا بَيْنَ الْكُرْسِيِّ إِلَى الْمَاءِ مَسِيرَةَ خَمْسِمِائَةِ عَامٍ، وَالْعَرْشُ عَلَى الْمَاءِ، وَاللَّهُ عَلَى الْعَرْشِ، وَيَعْلَمُ أَعْمَالَكُمْ
ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کا فاصلہ پانچ سو سال کا ہے، زمین سے پہلے آسمان کا فاصلہ پانچ سو سال کا ہے۔ ساتویں آسمان سے کرسی تک کا فاصلہ پانچ سو سال تک کا ہے۔ کرسی اور پانی کے درمیان فاصلہ پانچ سو سال کا ہے، عرش پانی پر ہے اور اللہ عرش پر ہے۔ اور تمہارے اعمال کو جانتا ہے۔
[التوحيد لابن خزيمة ١/٢٤٢ — ابن خزيمة (ت ٣١١) سندہ،حسن]
اس فاصلہ کے متعلق مزید وضاحت شریعت میں نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ
بارك الله فيكم وعافاكم
عرض ہے کہ ہمیں صرف ایمان و عقائد اور احکام شرعیہ کے متعلق سوال کرنے چاہیے ہیں اور جن چیزوں کا تعلق ہمارے عقیدہ و عمل کے ساتھ نہیں اس بارے سوال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، اس بارے کوئی مرفوع روایت ثابت نہیں ہے، البتہ سیدنا ابن مسعود رضی الله عنہ کا اثر ہے، جو حکما مرفوع ہے، کیونکہ ایسی خبر و بات جس کا تعلق امور غیب یا جزا، سزا کے ساتھ ہو صحابہ اپنی رائے سے بیان نہیں کر سکتے ہیں، ہاں اس بارے ایک چیز کا خیال رکھیں گے کہ آیا وہ اسرائیلی روایات سے تو نہیں ہے یا کسی نص ودلیل کے ساتھ تو نہیں ٹکرا رہی ہے۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ، ﺛﻨﺎ ﺣﻤﺎﺩ ﻳﻌﻨﻲ اﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ، ﻋﻦ ﺯﺭ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ، ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻗﺎﻝ: ﻣﺎ ﺑﻴﻦ اﻟﺴﻤﺎء اﻟﺪﻧﻴﺎ ﻭاﻟﺘﻲ ﺗﻠﻴﻬﺎ ﻣﺴﻴﺮﺓ ﺧﻤﺴﻤﺎﺋﺔ ﻋﺎﻡ، ﻭﺑﻴﻦ ﻛﻞ ﺳﻤﺎءﻳﻦ ﻣﺴﻴﺮﺓ ﺧﻤﺴﻤﺎﺋﺔ ﻋﺎﻡ، ﻭﺑﻴﻦ اﻟﺴﻤﺎء اﻟﺴﺎﺑﻌﺔ ﻭﺑﻴﻦ اﻟﻜﺮﺳﻲ ﺧﻤﺴﻤﺎﺋﺔ ﻋﺎﻡ، ﻭﺑﻴﻦ اﻟﻜﺮﺳﻲ ﺇﻟﻰ اﻟﻤﺎء ﺧﻤﺴﻤﺎﺋﺔ ﻋﺎﻡ، ﻭاﻟﻌﺮﺵ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺎء…..
[الرد على الجهمية للدارمي: 81 ، العظمة لأبي الشيخ : 565 ، 3/ 1047 الإبانة الكبرى لابن بطة:7/ 171،الأسماء والصفات للبيهقي : 852 صحیح]
یہ أثر دیگر طرق سے بھی التوحید لابن خزیمہ میں موجود ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ