سوال (2630)

زمین ٹھیکہ پہ دینے کے بارے میں یعنی آدھے حصے پہ زمین کسی کو دینا کیسا ہے؟

جواب

اس حوالے سے کتاب الاجارہ ابو داؤد کی بفوائد ابو عمار عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
امام بخاری نے وضاحت سے ذکر فرمایا ہے کہ مدینہ کے تمام مہاجر گھرانے تہائی یا چوتھائی حصے پر زمین کاشت کرنے کے لیے دیتے تھے ۔ حضرت علی سعد بن مالک عبد الله بن مسعود عمر بن عبد العزیز حضرت زبیر کے بیٹے قاسم اور عروہ حضرت ابوبکر، عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خاندان مزارعت پر زمین کاشت کراتے تھے۔ ائمہ میں سے حسن بصری ابن سیرین امام احمد امام بخاری امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام ابو یوسف اور امام محمد بہ سبھی مزارعت کے جواز کے قائل ہیں ان سب کی دلیل یہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فتح خیبر کے بعد بیت المال کی زمین جو کہ کچھ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی تھی خیبر کے یہودیوں کو مزارعت پر دی تھی۔ان سے طے پایا تھا کہ وہ کاشت کریں گے اور پیداوار کا آدھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیں گے۔ رسول اللہ الکلام نے اپنی ازواج مطہرات کے لیے اسی آمدنی سے خرچہ مقرر کر رکھا تھا ہر زوجہ محترمہ کو اسّی وسق خشک کھجور اور میں بیس وسق جو ملتے تھے۔ خلفائے راشدین کے زمانے تک مزارعت پر عمل اسی طرح جاری رہا۔ [صحیح البخاري مع فتح الباري کتاب الحرث والمزارعة]
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد ازاں تمام خلفائے راشدین کے عہد تک اپنی کھیتیاں مزارعت پر دیتے رہے۔ حتی کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں ان کو حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ بات کی کہ رسول اللہ تم نے کرائے پر کھیتیاں دینے سے منع فرمایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میرے علم کے مطابق تو یہی ہے کہ عبد رسالت میں اسی طریق پر عمل رہا لیکن پھر یہ سوچ کر کہ کہیں رسول اللہ اللہ نے منع فرمادیا ہو اور انہیں علم نہ ہوا ہو مزارعت کا طریق چھوڑ دیا۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رسول اللہ اللہ نے اس بات کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے کہ کوئی انسان اپنی زمین اگر خود کاشت نہیں کر رہا تو کسی دوسرے کو کاشت کے لیے دیدے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضیا للہ عنہ کے بقول آپ کے الفاظ یہ ہیں اگر تم میں سے کوئی (زمین) اپنے بھائی کو دیدے تو یہ اس پر متعین حصہ لینے سے بہتر ہے۔”
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت رافع کی وساطت سے جو اجمالی حکم پہنچا اور رسول اللہ تنے بطور احسان دوسرے کو اپنی زمین کاشت کرنے کی جو تلقین کی ان کی بنیاد پر عہد خلفائے راشدین کے بعد یہ بحث چل پڑی کہ مزارعت ( بنائی ٹھیکہ ) پر کاشت کرنے کی اجازت ہے بھی یا نہیں۔ آج کل بھی جب جاگیرداروں کے روایتی کرتوت سامنے آتے ہیں تو یہ بحث پھر سے چھڑ جاتی ہے کہ جو زمین خود کاشت نہیں ہو سکتی وہ دوسروں کو کیوں نہ دے دی جائے؟ اور وہ احادیث مبارکہ پیش کی جاتی ہیں جو اختصار اور اجمال پر مبنی ہیں۔ وہ روایتیں جن سے مزارعت کو ممنوع ثابت کیا جاتا ہے وہ ساری مختصر روایات ہیں۔ زیادہ تر وہ حضرت رافع بن خدیج اور حضرت جابر بن عبد الله الانصاری سے مروی ہیں۔ لیکن انہی دونوں حضرات سے مروی مفصل روایتیں حقیقت حال کو واضح کر دیتی ہیں۔ سنن ابو داود کے مشہور شارح امام خطابی نے بطور خاص اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ امام ابو داود نے حضرت رافع بن خدیج کی جو مجمل روایت سب سے پہلے نقل کی ہے اس کی تفسیر حضرت رافع اور دیگر صحابہ کی ان احادیث سے ہوتی ہے۔ امام ابو داود نے اس مسئلے کی تفہیم کے لیے یہ انداز اختیار کیا کہ پہلی حدیث حضرت رافع کے مجمل الفاظ پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی حبر الامت حضرت عبد اللہ بن عباس کی وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مزارعت کی بجائے بلا معاوضہ دوسرے کو کاشت کے لیے دینے کی بات کی ہے تو مقصد یہ تھا کہ اپنی زمین بطور احسان دوسرے کو دینے کی فضیلت واضح ہو جائے ۔ اگلی حدیث میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ واضح کر دیا گیا کہ منع کے الفاظ جو حضرت رافع نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے تھے وہ آپ کی پوری بات کا صرف آخری حصہ تھا جسے حضرت رافع جان نے پوری بات سمجھ لی۔ اس سے اگلی روایت سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مزارعت اس طرح کی جاتی تھی کہ کھیت کی خاص کر لیتا تھا ظاہر ہے اس طرح کئی جھگڑے پیدا ہوئے تھے کہ زمین کا کتنا حصہ خود سیراب ہوتا نالیوں کے کنارے کہاں تک کی پیداوار پر کاشت کار نے محنت نہیں کی وغیرہ ان جھگڑوں سے بچنے کے لیے رسول اللہ السلام نے نالیوں کے کنارے اور کھیت کے جو حصے پانی کے بہاؤ سے خود بخود سیراب ہو جاتے تھے انہیں مالک اپنے لیے حصے پر کاشت کروانے کی بجائے نقدی کے عوض زمین دینے کی تلقین فرمائی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مزارعت مطلقاً ممنوع نہیں ہاں اگر جھگڑوں کا خدشہ ہو تو فقط ٹھیکے پر زمین دینی چاہیے۔
اس سے اگلی روایت میں خود حضرت رافع ہی نے مزارعت کی دو صورت بیان کی ہے جو اسلام سے قبل رائج تھی اور اس میں کئی قباحتیں پیش آتی تھیں۔ اسی صورت کو اسلام نے ممنوع قرار دیا۔ حضرت رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زمین دینے والے پانی کے راستوں، چھوٹی تالیوں کے کناروں اور نالوں کے سرے پر واقع زمین کی پیداوار کو اپنے لیےمخصوص کر لیتے۔ پھر جب فصل پکتی تو کبھی ایک حصے کی پیداوار بہت ہو جاتی اوردوسرے کی خراب اور بھی اس کے برعکس حضرت رافع ہی کہتے ہیں: ” اس وقت مزارعت کی صرف یہی صورت معروف تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت کی اس صورت سے منع فرمادیا اور وہ صورتیں اختیار کرنے کا حکم دیا جن میں حصے متعین اور محفوظ ہوں۔ اس سے اگلی حدیث میں خود حضرت رافع سے نقدی کے عوض کاشت کے لیے زمین دینے کی اجازت مروی ہے۔ امام أبوداود نے اس ترتیب کے ساتھ روایات بیان کرنے کے بعد جس سے مزارعت کی جائز صورتوں کی تفصیل واضح ہوگئی باب اس میں ان تمام روایات کو ذکر کیا ہے جن میں مجمل طریق پر مزارعت کی پہلے سے رائج شدہ ناقص اور ظلم و ستم کی شکل کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔

فضیلۃ الباحث سید عبداللہ حسن حفظہ اللہ

لا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم

اب ان کو بندہ کیا کہے، فقہ فقہ کا نعرہ لگانے والے یہ ہی نہیں جانتے کہ فقہ ہے کس چیز کا نام، ٹھیکہ پر زمین دینا یا آدھے پر اس حوالے سے امام البخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے صحیح میں ایک باب باندھا ہے ۔

باب المزارعة بالشطر ونحوه وقال قيس بن مسلم عن أبي جعفر قال ما بالمدينة أهل بيت هجرة إلا يزرعون على الثلث والربع وزارع علي وسعد بن مالك وعبد الله بن مسعود وعمر بن عبد العزيز والقاسم وعروة وآل أبي بكر وآل عمر وآل علي وابن سيرين وقال عبد الرحمن بن الأسود كنت أشارك عبد الرحمن بن يزيد في الزرع وعامل عمر الناس على إن جاء عمر بالبذر من عنده فله الشطر وإن جاؤوا بالبذر فلهم كذا وقال الحسن لا بأس أن تكون الأرض لأحدهما فينفقان جميعا فما خرج فهو بينهما ورأى ذلك الزهري وقال الحسن لا بأس أن يجتنى القطن على النصف وقال إبراهيم وابن سيرين وعطاء والحكم والزهري وقتادة لا بأس أن يعطي الثوب بالثلث أو الربع ونحوه وقال معمر لا بأس أن تكون الماشية على الثلث والربع إلى أجل مسمىوالله تعالى أعلم والرد إليه أسلم.

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ

سونے ,چاندی، نقدی کے عوض زمین کرائے/ ٹھیکے پر دینا بالکل جائز ہے۔
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے زمین بٹائی/ٹھیکہ پر دینے کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر دینار و درہم(نقدی) کے بدلے میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
[بخاری : 2346]

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ