سوال (2842)

زیر ناف بالوں کو کہاں تک اتارنا چاہیے؟

جواب

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ “فتح البارى ” ميں كہتے ہيں:
امام نووى كا كہنا ہے كہ: ( العانۃ ) زيرناف بالوں سے مراد وہ بال ہيں جو عضو تناسل پر اور اس كے ارد گرد بال ہيں، اور اسى طرح عورت كى شرمگاہ كے ارد گرد بال زيرناف بال كہلاتے ہيں۔
اور ابو شامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
العانۃ: وہ بال ہيں جو الركب ( راء اور كاف پر زبر كے ساتھ ) يعنى پيٹ كے نچلے حصہ اور شرمگاہ كے اوپر ہوں، اور ايك قول يہ بھى ہے كہ ہر ران كى ركب ہوتى ہے، اور يہ بھى قول ہے كہ شرمگاہ كے اوپر والے، اور يہ بھى كہا گيا ہے گہ مرد يا عورت كى بنفسہ شرگاہ پر اگے ہوئے بال۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

ذکر و فرج کے اوپر والا اور دائیں بائیں والا حصہ “العانة” کہلائے گا۔

امام ابن منظور لسان العرب میں فرماتے ہیں: “وعانة الإنسان- إسبه- ‏الشعر النابت على فرجه ، وقيل هي منبت الشعر هناك. أي المكان الذي ينبت فيه الشعر. ‏وإلى هذا القول الأخير ذهب أكثر أهل اللغة، قال أبو الهيثم: العانة منبت الشعر فوق القبل ‏من المرأة، وفوق الذكر من الرجل، والشعر النابت عليها يقال له الشعرة، والإسب. قال ‏الأزهري، وهذا هو الصواب”.

یہی حد صاحب تہذیب اللغة الإمام الأزهري نے اور صاحب تاج العروس الإمام الزبيدي نے بیان فرمائی ہے۔

ابن دقیق العید رحمہ اللہ تعالیٰ نے دبر کے اردگر والے بالوں کو بھی بدلیل القیاس “العانة” میں شمار کیے ہیں۔ آپ کے الفاظ یوں ہیں: “قال أهل اللغة: العانة: الشعر النابت على الفرْج، وقيل: هو منبت الشعر، قال: وهو المراد في الخبر، وقال أبو بكر بن العربي: شعر العانة أوْلى الشعور بالإزالة؛ لأنه يكثف ويتلبَّد فيه الوسخ، وقال ابن دقيق العيد: كأن الذي ذهب إلى استحباب حلْق ما حول الدبر ذكره بطريق القياس”.

لیکن امام الشوکانی رحمه الله تعالى نے نيل الأوطار میں اس قیاس کا رد کیا ہے۔ اور الشيخ ابن آدم الأثيوبي رحمه الله تعالى نے اپنی شرح البحر المحيط الثجاج میں اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ امام الشوكاني رحمه الله تعالى کے الفاظ یوں ہیں:

“وأقول: الاستحداد إن كان في اللغة حلق العانة كما ذكره النووي، فلا دليل على سنية حلق الشعر النابت حول الدبر، وإن كان الاحتلاق بالحديد كما في “القاموس”، فلا شك أنه أعم من حلق العانة، ولكنه وقع في “صحيح مسلم” وغيره بدل الاستحداد في حديث: “عشر من الفطرة” “حلق العانة”، فيكون مبينا لإطلاق الاستحداد في حديث: “خمس من الفطرة”، فلا يتم دعوى سنية حلق شعر الدبر، أو استحبابه إلا بدليل، ولم نقف على حلق شعر الدبر من فعله – صلى الله عليه وسلم -، ولا من فعل أحد من أصحابه – رضي الله عنهم”.
والله تعالى أعلم والرد إليه أسلم

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ