سوال (1983)
زندہ شخص کے وسیلے سے دعا مانگنا کیسا ہے؟
جواب
کسی نیک شخص کے وسیلے کی کئی صورتیں ہیں۔ بعض جائز ہیں اور بعض ناجائز ہیں ، ان میں سے جس صورت کی تائید سلف صالحین سے ہوتی ہے، وہ ہی جائز اور مشروع ہو گی۔ آئیے صحابہ و تابعین کے دور میں چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ نیک لوگوں کے وسیلے کا کیا مفہوم سمجھتے تھے، نیز ان کا وسیلہ بالذات والاموات کے بارے میں کیا نظریہ تھا۔
دلیل نمبر: 1
صحابی رسول سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں بارش کے لیے ایک بہت ہی نیک تابعی یزید بن الاسود رحمہ اللہ کا وسیلہ پکڑا تھا۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں:
“إن الناس قحطوا بدمشق، فخرج معاوية يستسقي بيزيد بن الأسود”
تاريخ أبي زرعة الدمشقي: 602/1 ، تاريخ دمشق: 112،111/65، وسنده صحيح]
«دمشق میں لوگ قحط زدہ ہو گئے تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ یزید بن الاسود رحمہ اللہ کے وسیلے سے بارش طلب کرنے کے لیے نکلے»
یہاں پر قارئین کرام غور فرمائیں کہ یہ بالکل وہی الفاظ ہیں، جو صحیح بخاری کی حدیث میں ہیں کہ اس میں “استسقي بالعباس بن عبدالمطلب” کے لفظ ہیں اور اس میں “يستسقي بيزيد بن الأسود” کے الفاظ ہیں۔
اب دیکھیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کو جو یزید بن الاسود رحمہ اللہ کا واسطہ دیا تھا، اس سے کیا مراد تھی؟
ایک دوسری روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں:
“إن السماء قحطت، فخرج معاوية بن أبي سفيان و أهل دمشق يستسقون، فلما قعد معاوية على المنبر، قال: أين يزيد بن الأسود الجُرشي؟ فناداه الناس، فأقبل يتخطى الناس، فأمره معاوية فصعد المنبر، فقعد عند رجليه، فقال معاوية: اللهم إنا نستشفع إليك اليوم بخيرنا و أفضلنا، اللهم! إنا نستشفع إليك اليوم بيزيد بن الأسود الجرشي، يا يزيد ! إرفع يديك إلى الله، فرفع يديه، ورفع الناس أيديهم، فما كان أوشك أن ثارت سحابة في الغرب، كأنها ترسٌ، وهبَّت لها ريحٌ، فسقتـنا حتى كاد الناس أن لا يبلغوا منازلهم”
[المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان الفسوي : 219/2 ، تاريخ دمشق : 112/65 ، وسنده صحيح]
«ایک دفعہ قحط پڑا۔ سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ اور دمشق کے لوگ بارش طلب کرنے کے لیے نکلے۔ جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ منبر پر بیٹھ گئے تو فرمایا: یزید بن الاسود جرشی کہاں ہیں ؟ لوگوں نے ان کو آواز دی۔ وہ لوگوں کو پھلانگتے ہوئے آئے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کو حکم دیا تو وہ منبر پر چڑھ گئے اور آپ کے قدموں کے پاس بیٹھ گئے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یوں دعا کی : اے اللہ ! ہم تیری طرف اپنے میں سے سب سے بہتر اور افضل شخص کی سفارش لے کر آئے ہیں، اے اللہ ! ہم تیرے پاس یزید بن الاسود جرشی کی سفارش لے کر آئے ہیں۔ (پھرفرمایا) یزید! اللہ تعالیٰ کی طرف ہاتھ اٹھائیے (اور دُعا فرمائیے) ، یزید نے ہاتھ اٹھائے، لوگوں نے بھی ہاتھ اٹھائے۔ جلد ہی افق کی مغربی جانب میں ایک ڈھال نما بادل کا ٹکڑا نمودار ہوا، ہوا چلی اور بارش شروع ہو گئی، حتی کہ محسوس ہوا کہ لوگ اپنے گھروں تک بھی نہ پہنچ پائیں گے»
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس اثر کی سند کو “صحیح” قرار دیا ہے۔ [الإصابة في تميز الصحابة:697/6]
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زندہ نیک لوگوں سے دعا کرا کے اس کا حوالہ اللہ تعالیٰ کو دیتے تھے۔ یہی ان کا نیک لوگوں سے توسل لینے کا طریقہ تھا۔
دلیل نمبر: 2
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ صحابی رسول سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ نے بھی اسی نیک تابعی کی دعا کا وسیلہ پکڑا تھا، اس روایت کے الفاظ بھی ملاحظہ فرمائیں:
“إن الضحاك بن قيس خرج يستسقي، فقال ليزيد بن الأسود: قم يا بكاء”
[المعرفة والتاريخ: 220/2 ، تاريخ أبي زرعة الدمشقي: 602/1، تاريخ دمشق: 220/65، وسنده صحيح]
“ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ بارش طلب کرنے کے لیے (کھلے میدان میں) نکلے تو یزید بن اسود رحمہ اللہ سے کہا: اے (اللہ کے سامنے) بہت زیادہ رونے والے! کھڑے ہو جائیے (اور بارش کے لیے دعا کیجیے)”
قارئین کرام ہی بتائیں کہ کیا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کو وسیلے کے مفہوم کا زیادہ علم تھا یا بعد والے ادوار کے کسی شخص کو؟ پھر کسی ایک بھی صحابی یا تابعی یا ثقہ محدث سے ذات کے وسیلے کا جواز ثابت نہیں ہے۔
کیا اب بھی کوئی ذی شعور انسان صحیح البخاری والی حدیث میں مذکور وسیلے سے ذات کا وسیلہ مراد لے گا؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“أما التوسل بذاته في حضوره أو مغيبه أو بعد موته، مثل: الإقسام بذاته أو بغيره من الأنبياء، أو السؤال بنفس ذواتهم لا بدعائهم، فليس هذا مشهوراً عند الصحابة والتابعين، بل عمر بن الخطاب ومعاوية بن أبي سفيان ومن بحضرتهما من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم والتابعين لهم بإحسان، لما أجدبوا استسقوا، وتوسلوا واستشفعوا بمن كان حياً كـالعباس وكـيزيد بن الأسود، ولم يتوسلوا ولم يستشفعوا ولم يستسقوا في هذه الحال بالنبي صلى الله عليه وسلم لا عند قبره ولا غير قبره، بل عدلوا إلى البدل كـالعباس وكـيزيد، بل كانوا يصلون عليه في دعائهم، وقد قال عمر: اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا؛ فجعلوا هذا بدلاً عن ذاك لما تعذر أن يتوسلوا به على الوجه المشروع الذي كانوا يفعلونه. وقد كان من الممكن أن يأتوا إلى قبره فيتوسلوا به ويقولوا في دعائهم في الصحراء بالجاه ونحو ذلك من الألفاظ التي تتضمن القسم بمخلوق على الله عز وجل، أو السؤال به، فيقولون: نسألك أو نقسم عليك بنبيك، أو بجاه نبيك.ونحو ذلك مما يفعله بعض الناس”
«آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی، غیر موجودگی میں یا وفات کے بعد آپ کی ذات کا وسیلہ پیش کرنا، اللہ تعالیٰ کو آپ کی ذات یا دیگر انبیائے کرام کی ذات کی قسم دینا یا انبیائے کرام ہی کو پکار کر ان سے حاجت طلبی کرنا، سب کاموں کا حکم ایک ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے ہاں یہ کام معروف نہ تھا۔ اس کے برعکس سیدنا عمر بن خطاب اور سیدنا معاویہ بن ابوسفیان، ان کے ساتھ موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد آنے والے تابعین جب خشک سالی میں مبتلا ہوتے تو وہ زندہ نیک لوگوں، مثلاً سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور یزید بن اسود رحمہ اللہ، سے دعا کراتے اور اس دعا کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرتے تھے۔ انہوں نے ایسی صورت حال میں کبھی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ اختیار کر کے بارش طلب نہیں کی ہے ، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس نہ کسی اور کی قبر کے پاس، بلکہ یہ لوگ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور یزید بن اسود رحمہ اللہ کی طرف چلے گئے۔ وہ دعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ دینے کی بجائے آپ پر درود و سلام پڑھتے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ اے اللہ ! پہلے ہم تیرے نبی کو تیرے دربار میں وسیلہ بناتے تھے اور تو ہمیں بارش عنایت فرماتا تھا، اب ہم تیرے پاس اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ لے کر آئے ہیں، لہٰذا ہمیں بارش عطا فرما۔ یعنی صحابہ کرام نے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں اختیار کیے جانے والے طریقے کو اختیار کرنا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کرانا) ممکن نہ سمجھا تو اس کے بدلے میں اس طریقے (سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی دعا) کو اختیار کر لیا۔ یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر آتے اور آپ کی ذات کا وسیلہ اختیار کرتے یا کھلے میدان میں جا کر اپنی دعا میں آپ کا وسیلہ ان الفاظ میں پیش کرتے جن سے اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی قسم دینا یا مخلوق کے واسطے سے سوال کرنا لازم آتا۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ اے اللہ ! ہم تجھ سے تیرے نبی کے مقام و مرتبہ کے طفیل سوال کرتے ہیں یا تجھے تیرے نبی کی قسم دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ، جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں (لیکن صحابہ کرام نے ایسا نہیں کیا)»
[مجموع الفتاوي:318/1]
قابل غور بات تو یہ ہے کہ سلف صالحین راہِ اعتدال پر تھے، سنت کے متبع تھے۔ کسی زندہ یا فوت شدہ شخص کی ذات کے وسیلے کا ان کی زندگیوں میں ثبوت نہیں ملتا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
“ثم سلف الأمة، وأئمتها، وعلماؤها إلى هذا التاريخ، سلكوا سبيل الصحابة في التوسل في الاستسقاء بالأحياء الصالحين الحاضرين، ولم يذكر عن أحد منهم في ذلك التوسل بالأموات، لا من الرسل، ولا من الأنبياء، ولا من الصالحين. فمن ادعى أنه علم هذه التسوية التي جهلها علماء الإسلام، وسلف الأمة، وخيار الأمم، وكفّر من أنكرها، وضلله: فالله تعالى هو الذي يجازيه على ما قاله وفعله”
[پھر امت کے اسلاف و ائمہ اور آج تک کے علمائے کرام بارش طلب کرنے کے حوالے سے نیک زندہ لوگوں کا وسیلہ لینے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقے پر چلے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک سے بھی یہ منقول نہیں کہ انہوں نے فوت شدگان کا وسیلہ پیش کیا ہو، انہوں نے نہ رسولوں کا وسیلہ پکڑا، نہ انبیاء کا اور نہ عام نیک لوگوں کا۔ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ زندہ اور فوت شدہ دونوں کا وسیلہ برابر ہے، حالانکہ علمائے اسلام، اسلاف امت اور امت کے بہترین لوگوں اس برابری کے قائل نہ تھے، پھر وہ اس بدعی وسیلے سے بیزار ہونے والوں کو کافر اور گمراہ قرار دے تو اللہ تعالیٰ ہی اس کے قول و فعل پر اس سے نمٹ لے۔»
[الرد علي البكري لابن تيمية، ص: 127،126]
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ