سوال (4629)

ذو الحجہ کا چاند نکلنے سے پہلے بال کٹوانا اور ناخن تراشنا فرض ہے یا مستحب اور پھر کاٹنے پر کوئی سرزنش یا پھر قربانی پہ کوئی اثر پڑتا ہے؟

جواب

چاند سے پہلے بال و ناخن کاٹنے کا کوئی حکم نہیں ہے، چاند نکلنے کے بعد منع ہے، یہ حکم صرف اس کے لیے ہے، جو قربانی کرے، وہ چاند دیکھنے سے لے کر دس ذی الحجہ تک بال و ناخن نہ کاٹے، یہ ایک تعبدی حکم ہے، اس پر آپ کو عبادت کا اجر ملے گا، اگر اس نے کوتاہی کی ہے، تو قربانی میں کوئی حرج نہیں ہے، قربانی اپنی جگہ درست ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: اگر کوئی بھول کے ان دس دنوں ناخن چبا جائے یا کاٹ لے اور اسی طرح بال کاٹ لے جانے بوجھ کر یا بھول کر تو قربانی پر کوئی اثر پڑتا ہے؟
جواب: بھول کر عمل ہو گیا تو کوئی گناہ نہیں ہے، اگر مسئلہ کے علم کے ہونے کے باوجود جان بوجھ کر کیا ہے تو گناہ اور نافرمانی ہے جس پر توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے البتہ اس پر کفارہ کوئی نہیں ہے۔

هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

سائل: ایک عالم دین نے کہا ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو گا۔
جواب: گناہ کبیرہ وہ ہے، جس کے کرنے والے کو وعید سنائی گئی ہے، لعنت کی گئی ہے یا اس کے اعمال تباہ ہو جائیں گے، یہاں ایسا کچھ نہیں ہے، باقی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت سے بچنے کے لیے ہم کہیں گے کہ بال و ناخن قصداً نہیں کاٹنے چاہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سوال: کیا قربانی کے لیے ذوالحجۃ کے چاند سے پہلے بال اور ناخن کٹوانا ضروری ہے؟ سوال پوچھنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایک بندہ کا پہلے قربانی کا کوئی پروگرام نہیں تھا تو اس نے بال اور ناخن وغیرہ نہیں تراشے، اب اللہ تعالیٰ نے اسباب پیدا فرما دیے ہیں اور بندہ نے قربانی لے لی ہے، تو ایسی صورت میں بال اور ناخن تراشنے کا کیا حکم ہے۔

جواب: اللہ تعالیٰ نے اسباب پیدا فرمائے ہیں، اب یہ ہے کہ کچھ دن باقی ہیں، اپنے بال و ناخن روک کر رکھے، پھر قربانی کا اہتمام کرے، یاد رہے کہ قربانی الگ چیز ہے، بال و ناخن کو روک لینا یہ الگ چیز ہے، ایسے سمجھیں کہ آپ کے پچاس پچاس نمبر کے دو پیپر ہیں، قربانی اپنی جگہ پر درست ہے، ممکن ہے کہ کچھ لوگ بال و ناخن کے نمبر پورے نہ لے سکیں، اہل علم نے یہ وضاحت کی ہے کہ اگر قربانی سنت کے مطابق ہے تو درست ہے، قربانی کا اہتمام ضرور کریں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ