والدہ مرحومہ کو اللہ تعالی نے حساس طبیعت سے نوازا تھا۔ مگر کبھی یاد نہیں ہے کہ وہ اس حساسیت سے مغلوب ہوگئیں ہوں۔ زندگی بھر حساسیت کو انھوں نے قابو میں رکھا ۔حالانکہ لوگوں کے رویے سے وہ بہت دکھی ہوجاتی تھیں۔  ہمارے ایک رشتہ دار تھے۔ جو اب الحمد للہ بقید حیات ہیں ۔ خوشی کے موقع پر مبارکباد دینے کبھی ہمارے گھر نہیں آئے۔

مگر جب کوئی وفات ہو جاتی  یا کوئی قریب الموت ہوجاتا تو وہ ہمارے گھر سب سے پہلے پہنچ جاتے۔ پھر اس کامقصود مریض کا پوچھنا نہیں تھا۔ والدہ کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ لگاتے اور ہنستے جاتے۔ والدہ نے کبھی اس سے شکایت نہیں کی اور نہ کبھی ماتھے پر شکنیں پیدا کیں۔ ان شکایات کو نا پسند کرتے ہوئے جب کبھی انھیں موقع ملتا تو سرک جاتیں۔ مگر ان پر اپنے دکھ کو کبھی ظاھر نہیں کیا۔

زندگی کے آخری ایام میں، میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا کہ آپ کیوں اسی طرح کرتی تھیں تو فرمایا کہ ظالم لوگوں پر اپنے غم اوردکھ ظاہر کرنے سے ان کو خوشی ملتی ہے۔ میں انھیں خوش نہیں کرنا چاہتی۔ وہ کسی بھی حرکت پر اپنے رشتہ داروں اور ہمسایہ لوگوں سے شکایت نہیں کرتیں تھیں۔ بارہا میں نے اپنے رشتہ داروں کو دیکھا کہ وہ اس بات کے جتن کرتے کہ ہمارے فلاں کام کے بارے میں وہ کیا کہتی ہے  مگر انھیں کامیابی نصیب نہ ہوتی۔

والدہ اپنی اولاد کو ہمیشہ یہی بات سکھاتی کہ اپنی زبان پر قابو رکھو۔ لوگوں کے ظلم اور برے رویے کے آثار تم پر ظاہر نہیں ہونے چاہئے۔ کیونکہ اس طرح پھر ظلم بڑھ جاتاہے۔ اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ وہ دکھ کو دوستوں پر ظاہر کرنے کی سخت مخالف تھیں۔ا فرمایا کرتی تھیں کہ عاقل لوگ دوستوں کو دکھی نہیں کرتے۔ ان سے اپنا دکھڑا کہنے سے وہ دکھی ہوجاتے ہیں ۔البتہ دوستوں سے مشورہ کرنے کا باقاعدہ ترغیب دیتی تھیں۔ میں تعلیم سے فراغت کے بعد جامعة الدراسات غوث آباد کوئٹہ میں مدرس مقرر ہوا۔ دو ہفتے بعد گھر آتا تھا۔ ایک دفعہ میں کپڑے بدلے بغیر گھر آیا۔ چپل اور سفید ٹوپی پہنے ہوئے۔ جب گھر پہنچا تو والدہ صاحبہ صحن میں بیٹھی تھیں۔ چائے اور پانی کا کہا اور حال واحوال پوچھتی رہیں۔

جب میں نے پورے اطمینان کے ساتھ چائے پی لی۔ تو پھر پوچھا۔ بیٹا آپ گاڑی سے اڈے پر اترے؟ میں نے کہا نہیں  بازار میں اترا۔ پھر پوچھا،  دوستوں سے ملاقات ہوئی؟  بتایا ہاں اور دیر تک ان کے ساتھ بیٹھا رہا۔ فرمایا پھر کیاہوا ؟ بتایا پھر فلان جگہ گئے ۔میری اس بات پر دیر تک انہوں نے خاموشی اختیار کی۔ میں حیراں وپریشاں بیٹھا رہا۔ پوچھنے کی استطاعت کہاں تھی؟ منتظر بیٹھا رہا۔ سکوت کے بہت دیر بعد فرمانے لگیں۔ بیٹا اگر انسان غریب ہو ۔اورنئے کپڑے پاس نہ ہو۔ توپرانے صاف کپڑے توپہن سکتے ہو نا۔ بوٹ کپڑے سے صاف کرکے پہننا کونسا مشکل کام ہے۔ تم سے یہ کام بھی نہیں ہوتا ہے۔

اس حالت میں جب آپ بازار آگئے اور دوستوں سے ملے تو انہیں آپ کی اس حالت پر کتنا دکھ ہوا ھوگا؟  وہ سمجھتے ہونگے کہ ان کے پاس کپڑے اور بوٹ وغیرہ نہیں ہے۔ اگر آپ اچھے کپڑوں میں پاک صاف ان سے ملتے تو انھیں کتنی خوشی ہوتی  اور پھر دشمنوں نے بھی دیکھا ہوگا ؟ وہ آپ کی اس حالت سے خوش ہوگئے ہونگے کہ شکر اللہ تعالی کا ہے کہ اس نے ہمارے دشمن کو ذلیل وخوار کیا ہے ۔معقول آدمی وہ ہوتا ہے ۔جو دوستوں کو خوش اور دشمنوں کو خفا رکھتاہے ۔آئندہ کبھی اس حالت اور شکل میں اپنے گھر اور گاؤں نہیں آنا۔ بس یہ ان کا سبق تھا ۔جسے ہم نے پھر اپنایا لیا اور اس پر عمل شروع کیا۔

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ وہ مختلف اوقات میں اس حوالے سے قیمتی باتیں بتاتی تھیں۔ فرماتیں اپنی ذات کی چابی کسی مخالف کو نہیں دینی چاہئے کہ وہ پھر جب چاہے اسے کھول کر بیٹھ جائے۔ مخالف کو اپنی ذات کی چابی دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اسے یہ بتایئں کہ آپ کی فلاں فلاں باتوں نے مجھے بہت  پریشان کیا۔ میری نیند اڑگئی۔ مجھے بہت تکلیف ان باتوں سے ہوئی۔ آپ جب انھیں یہ بتایئں گے ۔تو گویا آپ نے انھیں اپنی ذات کی چابی سپرد کی ۔اب وہ جب چاہیں گے۔ اسے کھول دینگے اور آپ انکے قابو میں آگئے۔ اس لیے وہ شکایت کرنے کی سخت مخالف تھیں اور اسے کسی طور پر برداشت نہیں کرتی تھیں۔ شکایت کرنے پر اپنی اولاد کو خوب ڈانٹتی تھیں۔ رحمھا اللہ تعالی

واصل واسطی