سوال

گزارش ہے کہ میں اپنی وراثت کو تقسیم کرنا چاہتا ہوں۔میرا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔ چاروں بچے شادی شدہ ہیں۔ میرا سارا کاروبار میرا بیٹا احمد اسلم سنبھال چکا ہے۔

میرا سوال یہ ہے کہ میں اپنی جائیداد میں سے اپنے بیٹے کو کاروبار والی پراپرٹی اور رہائش والی پراپرٹی تحفہ دے سکتا ہوں؟ اس کے علاوہ ایک اور رہائشی مکان ہے، وہ بیوی کو تحفہ دے دوں؟

اس کے بعد جو بھی رأس المال باقی بچے گا جو کہ کاروبار کی شکل میں یا بنک میں ہے۔ وہ تمام بچوں اور بیوی میں شرعی تقسیم کے مطابق بعد از ادائیگی قرض ان تمام میں تقسیم کر دوں۔

رہنمائی فرما کر ممنون فرمائیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

خاوند اپنی بیوی کو مکان وغیرہ یا کوئی بھی چیز تحفہ دے سکتا ہے، لیکن اولاد میں اس طرح کی کمی بیشی نہیں کی جاسکتی، یعنی تحفے میں کسی ایک بیٹے کو دکان، مکان یا کوئی اور چیز دینا جائز نہیں ہے۔ چاہے وہ والد کے ساتھ کاروبار ہی کیوں نہ کرتا رہا ہو! اس میں عدل لازم ہے۔ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ والی حدیث واضح ثبوت ہے انہوں نے اپنے ایک بیٹے کو غلام ہدیہ کیا تھا۔ اس پر اللہ کے رسول ﷺ  نے سیدنا نعمان بن بشیر سے فرمایا:

 “«أَعْطَيْتَ سَائِرَ وَلَدِكَ مِثْلَ هَذَا؟»، قَالَ: لاَ، قَالَ: «فَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلاَدِكُمْ»، قَالَ: فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِيَّتَهُ”. [صحیح البخاری: 2587]

’’اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو۔ چنانچہ وہ واپس ہوئے اور ہدیہ واپس لے لیا‘‘۔

اگر کسی  نے اپنی زندگی میں میراث تقسیم کرنی ہے تو اہل علم کے راجح قول کے مطابق میراث کا صحیح طریقہ وہی ہے  جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے:

“لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَيَيۡنِ‌”.[النساء: 11]

’’مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے‘‘۔

بعض اہل علم کے نزدیک زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے پر برابر کا حصہ ہے لیکن یہ پھر بیٹوں کے ساتھ ظلم ہے بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ ہی ملے گا چاہے والد اپنی زندگی میں ہی مال تقسیم کرے۔ یہ بات امام ابن عثیمین ؒ نے لکھی ہے اور حافظ صلاح الدین یوسف ؒ نے بھی اسی موضوع پر ایک مقالہ  لکھا ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ

نوٹ: لجنہ کے اکثر مشایخ کا فتوی یہی ہے کہ زندگی میں وراثت تقسیم کرنا درست نہیں، جیسا کہ کئی ایک فتاوی میں یہ موقف پیش کیا جا چکا ہے۔ البتہ  بعض مشایخ اس کی اجازت کے قائل ہیں، فتوی ہذا اسی کے مطابق ہے۔