جو شخص جتنا علم میں زیادہ ہوتا ہے اسی قدر محتاط ہوتا ہے، تحریر و تقریر نَپی تُلی ہوتی ہے، یوں کہیے کہ شرعی و اخلاقی قواعد و ضوابط کی سان سے گزر کر مصقّل ہوتی ہے، اسے بولنے اور لکھنے سے پہلے اطراف و اکناف میں بار بار جھانکنا ہوتا ہے، وہ تخیّلات میں خود ہی سائل ہوتا ہے، خود ہی جواب بناتا ہے، جواب اچھا بن پڑے تو اسے منظرِ عام پر لاتا ہے۔
ایسا آدمی ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کے کندھوں پر جو علم و حکمت اور دانائی جیسی ذمہ داری کا بوجھ ہے وہ اس بات کا متقاضی ہےکہ یاوہ گوئی اور بیہودہ گوئی اور غیر وزن بات نا کرے بلکہ کسی بھی ایسی بات پر کان نہ دھرے جس کی اصل مفقود ہو، یا جذبہ انتقام میں پڑھی اور سنی گئی ہو، یا کسی چوب دار (چمچے) کی زبانی ہو!
ہمارا آپسی تعلق اخوت کا ہے جس کی بنیاد اسلام ہے۔ اسلام کسی بھی صورت ہمیں غیر ذمہ دار نہیں دیکھنا چاہتا۔ ہماری ذمہ داری ہمارے اقوال و افعال سے واضح ہوتی ہے۔ اسلام کے رشتے کے علاوہ ہمارا دوسرا رشتہ مسلکی ہے۔ اپنے ہی ہم مسلک بھائیوں بارے ایسی غیر شُستہ زبان استعمال کرنا کسی صورت زیب نہیں دیتا۔ ایسا کرنے والا عام آدمی ہو تو اس پر افسوس کیا جاتا ہے، لیکن اس نِیچ فعل کا مرتکب ایک عالمِ دین ہو، جس کا احبابِ علم و عرفان کے مابین چرچا عام ہو، اس کے زبان وبیان کا طوطی بولتا ہو، اس سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ اس لیے کہ عام آدمی کیلئے دل میں کوئی جگہ نہیں ہوتی، جب کے عالمِ دین کیلئے ایک احترام ہوتا ہے ایک عقیدت ہوتی ہے۔
دِفاعی اور انتقامی پوزیشن میں ہم سب سے پہلے جس چیز کو پھینکتے ہیں وہ ہے “قَبا” !!
جی ہاں علمی اور شخصی حیاء کی “قَبا” !!
● اس سلسلہ میں ہماری پیاری شریعت نے بہت ہی خوبصورت رہنمائی فرمائی ہے۔
نبی محترم ﷺ نے فرمایا:
“جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیئے کہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ چپ رہے”۔
[صحیح البخاری: 6138]
■ صرف اچھی بات، جی ہاں!
اگر اچھی بات منہ میں ہے تو منہ کھولیں وگرنہ منہ بند رکھیں، تاکہ آپ سمیت آپ کے حلقے کے لوگ بھی عافیت میں رہیں۔ آپ کی بار بار تنقید برائے تنقید بھی لوگوں کیلئے اذیت کا باعث ہے، اور مسلمان کو اذیت پہنچانا کسی صورت گناہ سے خالی نہیں!
نبی محترم ﷺ نے فرمایا تھا:
“مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں”۔
[صحیح البخاری: 10]
● اگر آپ کو مکمل علم اور یقین ہے تو بولیں، وگرنہ اس بولنے پر پچھتاوا رہے گا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“اور دیکھو جس بات کا تمہیں علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑو (اپنی حد کے اندر رہو) یاد رکھو کان، آنکھ، عقل ان سب کے بارے میں باز پرس ہونے والی ہے”۔
[الاسراء: 36]
● بصورتِ دیگر ایسے حالات میں جبکہ بات بتنگڑ بن رہی ہو، بے نتیجہ اور لا حاصل ہو، یا پلیٹ فارم ایسا ہو جہاں بات نہ بن رہی ہو تو خاموشی میں نجات ہے۔
جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“جو خاموش رہا اس نے نجات پائی”۔
[سنن ترمذی: 2501]
اللہ کریم سمجھنے کی توفیق دے اور اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے۔

 عبدالقیوم فرُّخ