زیارتِ قباء کے لیے ہفتے کا انتخاب کیوں؟

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد!
( *قباء* ) مدینہ نبویہ کا جنوبی حصہ ہے، اس کی اپنی سنہری اور ایمان افروز تاریخ ہے، ماضی اور حال کے اس سے جڑے ان گنت دلچسپ قصے ہیں، البتہ عالمی سطح پر عام مسلمانوں کی معلومات اب صرف ( مسجدِ قباء ) پر سمٹ گئی ہیں، قباء کی علاقائی معلومات رکھنے والے افراد اب بہت کم ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ پہنچ کر ( قباء ) میں دیڑھ عشرہ رکے رہے، اہلِ قباء ہی رسول اللہ ﷺ کے سب سے پہلے میزبان رہے ہیں۔
تیسری صدی ہجری کے معروف سیرت نگار *عبد الملك بن هشام الحميري* (ت 213ھ) رحمہ اللہ اپنی کتاب ( *السيرة النبوية*: ٢/١٣٤ ) میں امامٌ في المغازي *محمد بن إسحاق المدنی* (ت 151ھ) رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ آپ ﷺ قبیلۂ عمرو بن عوف کے ایک سردار *کلثوم بن هِدْم* رضی اللہ عنہ کے گھر قیام فرمائے، اور عام ملاقاتوں کے لیے آپ ﷺ نے *سعد بن خَيثمة* رضی اللہ عنہ کے گھر ( *بیت الأعزاب* ) کا انتخاب فرمایا، اس لیے کہ آپ غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے آپ کے گھر میں بے تکلفی سے سب جمع ہو جاتے تھے۔
پھر ( مسجدِ قباء ) کی تعمیر میں بھی آپ ﷺ بنفس نفیس شریک رہے، اندازہ لگائیے کہ اہلِ قباء، صحابہ، ان کی رہائشیں، اجتماع اور ملاقاتیں، دیگر علاقائی معلومات، وغیرہ امور کس درجہ اہمیت کی حامل ہیں۔
مجھے اس تحریر میں صرف ایک بات بتانا ہے، وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر ہفتہ سواری کرکے اور کبھی پیدل ( قباء ) جایا کرتے تھے، آپ ﷺ اہلِ قباء کی زیارت اور خیریت معلوم کرنے کی غرض سے ہفتے کے سات دنوں میں ( ہفتہ ) کا انتخاب ہی کیوں فرمایا؟ اس دن کی تخصیص میں کیا حکمت ہے؟ اسی حکمت کو اس تحریر میں ذکر کیا جائے گا ان شاء اللہ۔

مدنی عہدِ نبوت کے منبر ومحراب

عہدِ نبوت میں مسجدِ نبوی کے علاوہ بھی مدینہ نبویہ میں متعدد مسجدیں تھیں، کچھ مسجدوں اور دیگر مقامات پر رسول اللہ ﷺ نے نمازیں بھی ادا فرمائی ہیں۔
امام *بخاری* رحمہ اللہ اپنی الصحیح کی کتاب الصلاۃ میں ایک باب

( باب المساجد التي على طرُق المدينة والمواضع التي صلَّى فيها النبي ﷺ )

قائم فرمائے ہیں، اس باب کے تحت *عبد اللہ بن عمر بن خطاب* (ت 73ھ) رضی اللہ عنہما کی ایک ہی سند سے کچھ مرویات (نمبر 483 – 492) لائے ہیں، جن میں رسول اللہ ﷺ کس مسجد میں اور کس مقام پر نماز پڑھے ہیں اس کا ذکر ہوا ہے۔
البتہ صحیح بخاری کی ان روایات میں عہدِ رسالت کی سبھی مساجد کا استیعاب نہیں ہوا ہے، اس کی وجہ امام بخاری رحمہ اللہ کا تخریجِ حدیث میں صحت کا اعلی معیار ہے۔ یعنی جو احادیث آپ کی شرط پر آپ کو ملی ہیں بس انہیں مساجد کا ذکر کیا گیا ہے۔
حافظ *ابن حجر عسقلانی* (ت 852ھ) رحمہ اللہ ( *فتح الباري بشرح صحيح البخاري*: ٢/٢٣٤، دار طيبة ) میں مذکورہ باب کے تحت ذکر کی گئیں مرویات میں مساجد کی بابت فرماتے ہیں: *

ذكَر البخاريُّ المساجدَ التي في طرق المدينة، ولم يذكر المساجد التي كانت بالمدينة لأنه لم يقع له إسناد في ذلك على شرطه.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: *

وقد ذكر عمر بن شبة في (أخبار المدينة) المساجد والأماكن التي صلَّى فيها النبي ﷺ بالمدينة مستوعبًا*.

نوٹ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی نشاندہی کے بعد میں نے حافظ *ابو زید عمر بن شبَّہ البصری* (ت 262ھ) رحمہ اللہ کی میرے پاس موجود مطبوع کتاب اور محقَّق نسخہ ( *أخبار المدينة*: ١/٣٣٦ ) کی طرف رجوع کیا، اس میں باب یوں قائم کیا گیا ہے: ( *ذكر المساجد والمواضع التي صلَّى فيها رسول الله ﷺ* )۔
یہ کتاب اپنے موضوع میں مصدر کی حیثیت رکھتی ہے، سات جلدوں میں ہے، ساتویں جلد فہرست ہے، بقیہ چھ جلدیں چھ دکاترہ کی تحقیق سے ہیں، اس سے قاری کو کتاب کے علمی مقام کا اندازہ ہو گیا ہوگا، اللہ تعالیٰ مصنف اور ان محققین دکاترہ اصحابِ علم کو اجر عظیم عطا فرمائے۔
مجھے یہاں یہ جاننا تھا کہ عہدِ نبوت میں مدینہ نبویہ کی کل مساجد کتنی رہی ہوں گی؟ اس سلسلے میں حافظ *ابو عمر بن شبَّہ بصری* رحمہ اللہ نے تقریبًا سو 100 روایات لائے ہیں، متعدد مساجد کا ذکر ہے، کچھ نام مکرر ہیں، اور کچھ مسجدوں کے نام متعدد ہیں۔
پہلی جلد کے محقق دکتور *معاذ بن عبد الرحیم خوجہ* حفظہ اللہ نے بیشتر روایات پر ( ضعیف ) کا حکم لگایا ہے۔

میرا مقصود

محترم قارئین! مجھے اس تحریر میں یہ مقصود نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجدِ نبوی کے علاوہ کن مساجد میں نماز ادا فرمائے ہیں!!
مجھے یہ بتانا مقصود ہے کہ عہدِ نبوت پھر عہدِ خلفائے راشدین میں مسجدِ نبوی کے علاوہ مدینہ نبویہ میں جتنی بھی مساجد رہی ہوں سبھی مسجدوں میں فرض نمازیں تو با جماعت ادا کی جاتی تھیں مگر *خطبۂ جمعہ* صرف ( مسجد الرسول ﷺ ) ہی میں ہوا کرتا تھا۔ یہ واضح ہو تو ہی میرا موضوع واضح ہو پائے گا۔
عالمِ اسلام کی عظیم، نہایت محترم، اور معتمَد علیہ فتویٰ کمیٹی ( *فتاوىٰ اللجنة الدائمة*: ٨/٢٥٧، المجموعة الأولى ) سے ایک ہی شہر میں تعددِ جمعات منعقد کرنے کی بابت استفسار پر مفصل جواب دیا گیا ہے، جواب تفصیل ہونے کی وجہ سے میں صرف اتنا حصہ نقل کروں گا جس سے میرے موضوع کی وضاحت ہوتی ہے۔

ج: ثبت أنه لم يكن في عهد النبي ﷺ مسجدٌ تقام فيه صلاةُ الجمعة بالمدينة إلا مسجد واحد وهو المسجد النبوي، وكان المسلمون يأتون إليه لصلاة الجمعة به، من أطراف المدينة وضواحيها، كالعوالي، واستمر الحال على ذلك في عهد الخلفاء الراشدين رضي الله عنهم …..

اصل موضوع

امام بخاری رحمہ اللہ اپنی الصحیح کی ( كتاب فضل الصلاة في مسجدِ مكة والمدينة ) میں ایک باب بایں الفاظ ( *بابُ مَن أَتى مسجدَ قباءٍ كلَّ سبْتٍ* ) قائم فرمائے ہیں۔ اس باب کے تحت صرف ایک حدیث (نمبر 1193) *عبد اللہ بن عمر* رضی اللہ عنہما سے لائے ہیں۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:

«كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَأْتِي مَسْجِدَ قُبَاءٍ كُلَّ سَبْتٍ، مَاشِيًا وَرَاكِبًا»

رسول اللہ ﷺ ہر ہفتہ (سنیچر) سواری کرکے اور کبھی پیدل مسجدِ قباء آتے۔
راویِ حدیث کہتے ہیں: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
( *ہفتہ* ) کا دن ہی کیوں منتخَب کیا گیا؟ اس انتخاب میں کیا حکمت تھی؟ اس سلسلے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ( *فتح الباري بشرح صحيح البخاري*: ٣/٦١١ ) میں رقمطراز ہیں:

… أنَّ مجيئَه ﷺ إلى قباء إنما كان لمواصلة الأنصار وتفقد حالهم وحال من تأخر منهم عن حضور الجمعة معه، وهذا هو السر في تخصيص ذلك بالسبت.

قباء جانے کے لیے رسول اللہ ﷺ ( *ہفتہ* ) کا دن اس لیے خاص فرمائے تاکہ *اہلِ قباء میں سے جو جو بھی جمعہ کے لیے مسجدِ نبوی حاضر نہ ہو سکے ان کا حال دریافت کیا جا سکے* اور اسی طرح دیگر (قدیم معاونین) انصار کی خبرگیری بھی کی جائے۔
٢٢ جمادي الأول ١٤٤٤ھ، السبت

محمد معاذ أبو قحافة

یہ بھی پڑھیں: دین چار امور پر مشتمل ہے