’’زہد وآداب کے باب میں امام فضیل بن عیاض رحمہ اللہ (١٨٧هـ) کے اقوال‘‘

 

✿«إِذَا ظَهَرَتِ الْغِيبَةُ ارْتَفَعَتِ الْأُخُوَّةُ فِي اللهِ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ مِثْلُ شَيْءٍ مَطْلِيٍّ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ دَاخِلُهُ خَشَبٌ وَخَارِجَةُ حَسَنٌ».

’’جہاں غیبت آ جائے وہاں اللہ تعالی کے لیے اُخوت اٹھ جاتی ہے، اس زمانے میں تمہاری مثال اُس چیز کی طرح ہے جو اندر سے سوکھی لکڑی ہو اور اوپر سونے، چاندی کا پانی چڑھا دیا جائے، بس اوپر سے ہی خوبصورت ہو۔‘‘ (حلية الأولياء لأبي نعيم : ٨/ ٩٦ وسنده صحیح)

⇚تعليق : غیبت اُخوت ایمانی کے لیے نہایت خطرناک چیز ہے۔

✿ «لَيْسَ مِنْ عَبْدٍ أُعْطِيَ شَيْئًا مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا كَانَ نُقْصَانًا لَهُ مِنَ الدَّرَجَاتِ فِي الْجَنَّةِ وَإِنْ كَانَ عَلَى اللهِ كَرِيمًا».

’’جس بندے کو بھی دنیا میں کوئی چیز عطا ہوگی وہ اس کے لیے درجاتِ جنت میں کمی کا باعث ہوگی، چاہے وہ اللہ تعالی کے ہاں مکرم ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (حلية الأولياء : ٨/ ٨٨ وسنده صحیح)
⇚تعلیق : یہ مضمون کئی ایک نصوص میں وارد ہے کہ دنیا کی نعمتیں اُخروی نعمتوں میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔

✿«إِذَا أَحَبَّ اللهُ عَبْدًا أَكْثَرَ غَمَّهُ وَإِذَا أَبْغَضَ اللهُ عَبْدًا أَوْسَعَ عَلَيْهِ دُنْيَاهُ».

جب اللہ تعالی کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو اس کا غم بڑھا دیتے ہیں اور جب کسی بندے کو ناپسند کرتے ہیں تو اسے دنیا کی فراوانی سے نواز دیتے ہیں۔‘‘ (حلية الأولياء : ٨/ ٨٨ وسنده صحیح)

✿«صَبْرٌ قَلِيلٌ وَنُعَيْمٌ طَوِيلٌ، وَعَجَلَةٌ قَلِيلَةٌ، وَنَدَامَةٌ طَوِيلَةٌ رَحِمَ اللهُ عَبْدًا أَخْمَدَ ذِكْرَهُ وَبَكَى عَلَى خَطِيئَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَهِنَ بِعَمَلِهِ».

’’تھوڑا صبر، طویل نعمتیں، عجلتِ قلیل اور طویل ندامت۔ اللہ تعالی اس بندے پر رحم کرے کہ جو اپنے آپ کو چھپا لے، گناہوں پر آہ و زاریاں کرے، اس سے پہلے کہ اپنے اعمال کا گروی بن جائے۔‘‘ (حلية الأولياء : ٨/ ١١٢ وسنده صحیح)

⇚تعليق : انسان کا اپنے آپ کو مشہور ہونے سے چھپا لینا کئی مصائب سے بچاؤ کا باعث ہے۔ بندے کو موت سے قبل ہوش میں آ جانا چاہیے کیونکہ مرنے کے بعد بندہ اپنے اعمال کا غلام ہوتا ہے، جیسے اعمال ہوں گے ویسا بدلہ ہوگا۔

✿ «إِنْ قَدَرْتَ أَنْ لَا تُعْرَفَ فَافْعَلْ، وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا تُعْرَفَ، وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يُثْنَى عَلَيْكَ، وَمَا عَلَيْكَ أَنْ تَكُونَ مَذْمُومًا عِنْدَ النَّاسِ إِذَا كُنْتَ مَحْمُودًا عِنْدَ اللَّهِ عز وجل».

’’اگر آپ اپنے آپ کو مشہوری سے چھپا سکیں تو ضرور ایسا کریں، جب آپ اللہ تعالی کے ہاں قابلِ تعریف ہیں تو آپ کو کوئی پریشانی نہیں کہ لوگ آپ کو نہ پہچانیں، آپ کی تعریفیں نہ ہوں اور آپ لوگوں کے ہاں مذموم ہوں۔‘‘ (التواضع والخمول لابن أبي الدنيا : ١٧ وسنده حسن)

⇚تعليق : مشہور ہونے کی خواہش بدترین خواہشات میں سے ہے، یہ بندے سے ہر برا کام کروا دیتی ہے۔ مشہوری کے چکر میں کتنے ہی اچھے خاصے لوگ گھٹیا امور پر راضی ہوجاتے ہیں۔ بندے کے لیے خیر کی علامت یہ ہے کہ اسے لوگوں کی تعریف یا تنقید کی کوئی پروا نہ ہو۔ اپنے عمل کو میزانِ شریعت پر تولے، اگر پورا اُترے تو کسی کی مخالفت کی پروا نہ کرے۔

✿«عَامِلُوا اللهَ عز وجل بِالصِّدْقِ فِي السِّرِّ، فَإِنَّ الرفيعَ مَنْ رَفَعَهُ اللهُ وَإِذَا أَحَبَّ اللهُ عَبْدًا أَسْكَنَ مَحَبَّتَهُ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ».

’’تنہائی میں اللہ تعالی سے معاملہ سچا رکھو، بلند وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ بلند کر دیں اور جب اللہ تعالی کسی بندے کو پسند کرتے ہیں تو لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دیتے ہیں۔‘‘ (حلية الأولياء : ٨/ ٨٨ وسنده صحیح)

⇚تعليق : تنہائی پاک کر لینے اور لوگوں کی زبان پر ذکر خیر جاری ہونے میں گہرا تعلق ہے ۔ جو بندہ اپنی تنہائی پاکیزہ بنا لیتا ہے تو اللہ تعالی نیک لوگوں کے دل اس کی طرف پھیر دیتے ہیں۔

✿«أَنا لَا أَعْتَقِدُ أَخَا الرَّجُلِ فِي الرِّضَا وَلَكِنْ أَعْتَقِدُ أَخَاهُ فِي الْغَضَبِ».

’’میں رضا مندی میں بندے کی دوستی نہیں سمجھتا بلکہ اسے غصے میں دوست خیال کرتا ہوں۔‘‘ (حلية الأولياء : ٨/ ٩٦ وسنده صحیح)

⇚تعلیق: دوست جب اپنے دوست سے راضی اور خوش ہو تب دوستی کا پتا نہیں چلتا، بلکہ اصل دوستی تو تب پتا چلتی ہے جب ان کے درمیان ناراضگی وغصہ چل رہا ہو۔ حالتِ رضا میں تو سب دوست رہ لیتے ہیں، ناراضگی کے باوجود دوستی نبھانا اور نیک خواہشات رکھنا اَخوت کی اَصل ہے۔

✿«إِنَّمَا أُتِيَ النَّاسُ مِنْ خَصْلَتَيْنِ حُبِّ الدُّنْيَا وَطُولِ الْأَمَلِ».

’’لوگوں کو دو خصلتیں عطا ہوئی ہیں : دنیا کی محبت اور لمبی امیدیں۔‘‘ (حلية الأولياء : ٨/ ٩٦ وسنده صحیح)

✿«الْمُؤْمِنُ فِي الدُّنْيَا مَغْمُومٌ يتَزَوَّدُ لِيَوْمِ مَعَادِهِ، قَلِيلُ فَرَحُهُ».

’’مومن دنیا میں غمگین ہی رہتا ہے، آخرت کے لیے تیاری کرتا ہے اور اس کی خوشی کم ہی ہوتی ہے۔‘‘ (حلية الأولياء : ٨/ ١١٠ وسنده صحیح)

✿«مَنْ أَرَادَ الآخِرَةَ أَضَرَّ بِالدُّنْيَا، وَمَنْ أَرَادَ الدُّنْيَا أَضَرَّ بِالآخِرَةِ، أَلا فَأَضِرُّوا بِالدُّنْيَا فَإِنَّهَا دَارُ فناءٍ، وَاعْمَلُوا لِدَارِ الْبَقَاءِ».

’’جو آخرت کا ارادہ کرتا ہے اس سے اپنی دنیا کا نقصان ہو جاتا ہے اور جو دنیا کا ارادہ کر لیتا ہے وہ آخرت کو نقصان پہنچا بیٹھتا ہے، خبردار! دنیا کو نقصان پہنچا لو کیوں کہ یہ فناء ہونے والا گھر ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والے گھر کے لیے عمل کرو۔‘‘
(الديباج للختلي، صـ : ٩٦، الزهد للخطيب : ٩٤ وسنده صحیح)

⇚تعلیق : یہ قول سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے۔ (مصنف ابن أبي شيبة : ٧/ ١٠٣ وسنده حسن)

✿ «لَا تَجْعَلِ الرِّجَالَ أَوْصِيَاءَكَ، كَيْفَ تَلُومُهُمْ أَنْ يُضَيِّعُوا وَصِيَّتَكَ وَأَنْتَ قَدْ ضَيَّعْتَهَا فِي حَيَاتِكَ وَأَنْتَ بَعْدَ هَذَا تَصِيرُ إِلَى بَيْتِ الْوَحْشَةِ وَبَيْتِ الظُّلْمَةِ وَبَيْتِ الدُّودِ، وَيَكُونُ زَائِرُكَ فِيهَا مُنْكَرًا وَنَكِيرًا، وَقَبْرُكَ رَوْضَةً مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةً مِنْ حُفَرِ النَّارِ ثُمَّ بَكَى الْفُضَيْلُ وَقَالَ: أَعَاذَنَا اللهُ وَإِيَّاكُمْ مِنَ النَّارِ».

’’لوگوں کے اپنے وصی نہ بناؤ، جب آپ نے اپنی زندگی میں اپنی وصیت کو ضائع کر دیا تو اب انہیں کیسے ملامت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کا خیال نہیں کیا؟ اس سب کے بعد آپ ایسے گھر منتقل ہونے والے ہیں کہ جو وحشت و اندھیرے اور کیڑوں کا مسکن ہے، وہاں منکر ونکیر آپ کے مہمان ہوں گے، قبر یا تو جنت کے باغیچوں میں سے باغیچہ ہوگی یا جہنم کے گڑھوں میں سے گڑھا۔‘‘ یہ کہہ کر فضیل رو پڑے اور فرمایا : ’’اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو جہنم سے بچائے۔‘‘ (حلية الأولياء : ٨/ ٨٧ وسنده صحیح)

⇚تعليق : بندہ بسا اوقات پوری زندگی میں طاقت کے باوجود کوئی کام نہیں کرتا لیکن بوقت وفات وصیتیں شروع کر دیتا ہے کہ ایسے ایسے کر لینا، یا اپنی اولاد کی تربیت نہیں کرتا اور بعد میں دوسروں کو وصیت کرتا پھرتا ہے، حالانکہ اسے چاہیے تھا کہ اپنی زندگی میں جو خود کرسکتا ہے وہ ضرور کرے۔

✿ «لَوْ أَنَّ الدُّنْيَا بِحَذَافِيرِهَا، عُرِضَتْ عَلَيَّ حَلَالًا، لَا أُحَاسَبُ بِهَا فِي الْآخِرَةِ، لَمَكَثْتُ أَتَقذَّرُهَا، كَمَا يَتَقذَّرُ أَحَدُكُمُ الْجِيفَةَ، إِذَا مَرَّ بِهَا أَنْ تُصِيبَ ثَوْبَهُ».

’’اگر ساری کی ساری دنیا حلال کر کے میرے سامنے پیش کی جائے کہ آخرت میں اس کا کوئی حساب نہیں ہوگا تب بھی میں اس سے اسی طرح کراہت رکھوں گا جیسے تم میں سے کوئی مردار کے پاس سے گزرتے ہوئے کراہت کرتا ہے کہ وہ اس کے کپڑوں سے نہ لگ جائے۔‘‘ (المتمنين لابن أبي الدنيا : ٨١ وسنده حسن)
⇚تعليق : یہ سلف صالحین کی دنیا سے نفرت اور عدم دلچسپی کی انتہاء پر دلالت ہے جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ دنیا کی محبت میں دوہرے ہوئے جاتے ہیں ۔

✿ «وَعِزَّتِهِ لَوْ أَدْخَلَنِي النَّارَ، فَصِرْتُ فِيهَا مَا يَئِسْتُهُ».

’’مجھے اللہ تعالی کی عزت کی قسم! اگر وہ مجھے جہنم میں داخل کر دے، میں اس میں چلا جاؤں تب بھی اس سے نا امید نہیں ہوؤں گا۔‘‘ (المتمنين لابن أبي الدنيا : ٨٢ وسنده حسن)

⇚تعليق : سلف کے ایسے اقوال کسی چیز کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے ہوتے ہیں، مطلب یہ نہیں کہ جہنم جانے کو راضی ہیں، بلکہ بیان یہ کر رہے ہیں کہ اللہ تعالی سے نا امیدی اور اس کی رحمت سے مایوسی کسی حال میں بھی نہیں ہوسکتی۔

✿ «تريد أن تقف الموقف مع نوح وإبراهيم، مع محمد ﷺ، وأن تدخل الجنة مع النبيين والصديقين، بأي عمل أو بأي شهوة تركتها أو أي قريب باعدته في الله، أو أي عدو قربته في الله عز وجل ».

’’تو چاہتا ہے کہ قیامت کے دن نوح و ابراہیم علیہما السلام اور محمد ﷺ کے ساتھ ہو، اور جنت میں انبیاء وصدیقین کے ساتھ داخل ہو تو اس کے لیے تو نے کون سا عمل کیا ہے؟ کس شہوت کو چھوڑا ہے؟ کس قریبی سے اللہ کے لیے دوری اختیار کی ہے؟ اور کس دور کو اللہ کے لیے قریبی بنایا ہے؟‘‘ (شعب الإيمان للبيهقي : ٩٠٧٠ وسنده جيد)

⇚تعليق : جس قدر چیز اعلی ہوتی ہے اسی قدر اس کی قیمت قیمت ادا کرنا ہوتی ہے، جو آخرت میں انبیاء وصدیقین کے ساتھ کا خواہش مند ہو اسے اعمال بھی اسی قدر کرنا ہوں گے۔

✿ «التَّوَاضُعُ أَنْ تَخْضَعَ لِلْحَقِّ وَتَنْقَادَ لَهُ، وَلَوْ سَمِعْتَهُ مِنْ صَبِيٍّ قَبِلْتَهُ مِنْهُ، وَلَوْ سَمِعْتَهُ مِنْ أَجْهَلِ النَّاسِ قَبِلْتَهَ مِنْهُ».

’’تواضع یہ ہے کہ آپ حق کے سامنے جھک جائیں اور اس کے پیچھے چلیں، کسی بچے سے سنیں تو قبول کر لیں بلکہ سب سے جاہل بندے سے بھی حق سنیں تو اسے قبول کر لیں۔‘‘ (التواضع والخمول لابن أبي الدنيا : ٨٨ وسنده حسن)

⇚تعليق : حق کسی بھی طرف سے آئے اسے قبول کر لینا چاہیے، اس پر کئی دلائل ہیں۔ اس سے کچھ لوگوں نے سمجھ لیا کہ حق طلب بھی ہر ایک سے کیا جا سکتا ہے، یہ بنیادی غلط فہمی ہے۔ بچے سے، جاہل سے، حق بات مل جائے تو اسے قبول کرنا دراصل حق کی پیروی ہے، لیکن انہیں اپنا استاذ بنا لینا عقل و فہم کی خفت پر دلالت ہے۔

… ترجمہ وتعلیق : حافظ محمد طاهر

 

یہ بھی پڑھیں: عقائد کے ماند پڑتے شعلے