سوال (1060)
کیا ظہر کی پہلی چار سنتیں اکٹھی چار پڑھی جا سکتی ہیں یا دو دو کر کے پڑھنی لازم ہیں؟
جواب
دونوں طرح درست ہے۔
فضیلۃ الباحث عبد الخالق سیف حفظہ اللہ
دن کے وقت چار رکعت نفل ایک سلام کے ساتھ پڑھنا سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے. اور نبی علیہ السلام کے فرمان ” صلاة الليل مثني مثني ” کے مفہوم سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ دن کے وقت چار رکعت پڑھی جا سکتی ہیں ، یاد رہے کہ اس حدیث میں نهار کا لفظ شاذ اور منکر ہے۔
فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ
“صلاة الليل والنهار مثنى مثنى” رات اور دن کی نماز دو دو رکعت ہے۔ یہ حدیث دن کے الفاظ کے ساتھ منکر ہے ، محفوظ الفاظ صلاة الليل مثنى مثنى ہیں ، چار رکعت نماز ایک سلام سے پڑھی جائے یا دو سلام سے یعنی الگ الگ (دن کی نمازوں کی سنتیں)۔
اسحاق بن راھویہ رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ چاروں اکھٹی پڑھی جائیں۔
دلیل:
وَقَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا، يَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِالتَّسْلِيمِ عَلَى الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ، وَالنَّبِيِّينَ، وَالْمُرْسَلِينَ، وَمَنْ تَبِعَهُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ.
ترمذی و نسائی کی یہ حدیث ہے۔
چار رکعتیں قبل العصر پڑھتے اور فرشتوں نبیوں اور مسلمین و مومنین پر سلامتی کے ساتھ ان کے درمیان فاصلہ کرتے،
اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد تشہد ہے۔
(اس حدیث کو عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ نے کہا کہ یہ کذب ہے (معنی انہ خطاء) امام ترمذی،البزار اور الجوزجانی نے معلول قرار دیا، اس میں ابو اسحاق عن عاصم بن ضمرہ عن علی کی سند سے تفرد ہے
دوسرا ابو اسحاق سے روات نے اس روایت کے متن میں اختلاف کیا ہے امام نسائی رحمہ اللہ نے اس اختلاف کو سنن الکبری نسائی میں ذکر کیا ہے,ایک روایت میں صراحتا لفظ ہیں کہ سلام آخر پر پھیرتے واللہ اعلم)۔
امام احمد و شافعی کا موقف ہے دو دو کر کے پڑھی جائیں۔
عموما نماز نفل (جیسے فجر کی سنن،ظہر و مغرب و عشاء کے بعد) دو دو رکعت ہے۔
عبداللہ بن عمر سے (جیسے طحاوی رحمہ اللہ اور ابن المنذر رحمہ اللہ نے روایت کیا) ثابت ہے وہ ظہر سے قبل چار رکعت پڑھتے سلام آخر پر پھیرتے۔
امام ترمذی نے سنن میں سلف کا یہ اختلاف ذکر کیا [حدیث 424]
راجح یہ ہے دو دو کر کے یا چاروں اکٹھی دونوں طرح جائز ہے۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ
سوال: کیا بندہ ظہر اور عصر کی سنتیں دو دو کر کے پڑھ سکتا ہے؟
جواب: دن اور رات کی سنتیں دو دو کر کے پڑھنی چاہیں، لہذا ظہر ہو یا عصر، سنتیں دو دو کرکے پڑھیں یہ زیادہ افضل ہے، البتہ اگر ظہر والی پہلی جو چار رکعت سنتیں ہیں، وہ ایک سلام سے پڑھ لی جائیں تو ایک اور فضیلت حاصل ہو جائے گی، لیکن عام قائدہ یہ ہے کہ رات اور دن کی نفلی نماز دو دو رکعت ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
صلاة الليل مثنى، مثنى کے الفاظ ہی محفوظ ہیں جیسا کہ شیخین نے صحیحین میں روایت نقل کی ہے ائمہ حفاظ وٹقات کی جماعت اسے اسی طرح بیان کرتی ہے اور سائل نے صرف رات کی نماز کے بارے میں پوچھا تھا جس پر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔
ﺻﻼﺓ اﻟﻠﻴﻞ ﻣﺜﻨﻰ ﻣﺜﻨﻰ، ﻓﺈﺫا ﺧﺸﻲ ﺃﺣﺪﻛﻢ اﻟﺼﺒﺢ ﺻﻠﻰ ﺭﻛﻌﺔ ﻭاﺣﺪﺓ ﺗﻮﺗﺮ ﻟﻪ ﻣﺎ ﻗﺪ ﺻﻠﻰ [صحیح البخاری: 990، صحیح مسلم: 749]
زیادت کے محفوظ اور غیر محفوظ ہونے کو معلوم کرنے کا مسئلہ نہایت دقیق ہے۔ اس النھار کی زیادت پر جو حدیث أبی ھریرہ کو شاہد کے طور پیش کیا جاتا ہے وہ بھی معلول ہے، میں نے اس روایت پر کچھ سال پہلے مفصل تحقیق پیش کی تھی مگر وہ میری دیگر سیکنڑوں تحقیقات کے ساتھ ڈلیٹ ہو چکی ہے۔ البتہ دو،دو کر کے پڑھنا جائز ہے مگر اسے افضل قرار دینا محل نظر ہے۔ هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
سوال: ظہر کی سنتیں چار رکعت اور عصر کی سنتیں چار اکٹھی پڑھنا کیسا ہے؟
جواب: پہلی بات ظہر کی چار رکعات ایک سلام سے پڑھنا اور دو سلام سے پڑھنا درست ہے البتہ خاص طور پہ دو، دو رکعت کر کے پڑھنا تو یہ علی الرجح سنت سے ثابت نہیں ہے۔
اگر کوئی کہے کہ حدیث میں صلاة الليل والنهار مثنی، مثنی آیا ہے کہ دن اور رات کی نفل نماز دو، دو رکعت ہے۔
تو عرض ہے کہ صحیح اور محفوظ حدیث صرف صلاة الليل مثنى، مثنى کے الفاظ سے ہے جیسا کہ صحیح البخاری :(472،473،993،1137)، صحیح مسلم: (749) وغیرہ میں حدیث موجود ہے۔
اگر النھار کی زیادت محفوظ ہوتی تو شیخین جیسے ناقد وعلل کے ماہر امام ضرور اس زیادت کو لے کر آتے۔
یعنی آپ النھار کی زیادت راوی کی خطا ہے اور جن ثقات حفاظ کرام نے اس زیادت کو بیان نہیں کیا انہی کی روایت والفاظ محفوظ ہیں۔
رہا بعض دیگر روایتیں جنہیں شاہد بنایا جاتا ہے تو وہ معلول ہیں۔
میں نے اس پر تفصیل کچھ سال پہلے لکھی اور نشر کی تھی مگر سینکڑوں تحقیقات کے ساتھ وہ ضائع وڈلیٹ ہو چکی ہے۔
دوسری بات عصر سے پہلے چار رکعات نماز ادا کرنے والی کوئی روایت ثابت نہیں ہے جیسا کہ طالب علم نے تحقیق مشکاۃ المصابیح میں قدرے تفصیل سے لکھا ہے۔ والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
سائل: عصر کی نماز سنت چار ثابت نہیں ہے شیخ؟
جواب: جی یہی لکھا ہے کہ ثابت نہیں جو روایت فضیلت والی معروف ہے وہ علی الراجح ضعیف ہے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ