سوال (1726)

کیا ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر اختتام ایام تشریق تک ہر نماز کے بعد بآواز بلند تکبیرات کہنا مسنون ہے؟

جواب

“تکبیرات مقید” کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، بعض لوگ تکبیرات کی دو قسمیں کرتے ہیں۔
➊ ”تکبیرات مطلق“
➋ ”تکبیرات مقید“
تکبیرات مطلق کا مطلب یہ کہ اس کا کوئی مخصوص وقت نہیں ہے یہ کبھی بھی کہیں جائیں گی ، لیکن تکبیرات مقید کا ایک مخصوص وقت ہے اور وہ نمازوں کے بعد کے اوقات ہیں ، حتی کہ بعض نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ ان تکبیرات کو نمازوں کے بعد کے مسنون اذکار سے بھی پہلے کہیں گے ۔
عرض ہے کہ : کتاب وسنت اور آثار صحابہ کی روشنی میں تکبیرات کا کوئی بھی مخصوص وقت نہیں ہے ، لہٰذا مذکورہ تقسیم بے بنیاد ہے اور ”تکبیرات مقید“ کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، بلکہ یہ تقلیدی برادری کے یہاں رائج غلط امور میں سے ہے ، بعض اہل علم نے غالبا تقلیدی برادری کے ساتھ حسن ظن کی بنا پر ان کی ہاں میں ہاں ملادی ہے ، لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ بالکل بے دلیل بات ہے ، بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے تو اسے بدعت کہاہے۔
ملاحظہ ہو یہ سوال وجواب:

وسئل : هل يقيد التكبير في أيام التشريق فيما بعد الصلوات؟ فأجاب : لا، لا يقيد؛ بل تقييدُه مِن البدع؛ إنما التكبير بكل وقتٍ من أيام التشريق ،السائل: وأيام العشر؟ الشيخ (الالبانی): وأيام العشر كذلك

علامہ البانی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ : کیا ایام تشریق میں نمازوں کے بعد تکبیر کو مقید کیا جائے گا ؟ تو علامہ البانی رحمہ اللہ نے جواب دیا: نہیں ! نمازوں کے بعد اس کی تقیید نہیں کی جائے گی ! بلکہ نمازوں کے بعد اسے مقید کرنا بدعات میں سے ہے ، اور صحیح یہ ہے کہ تکبیر ایام تشریق میں کسی بھی وقت کہی جائے گی ۔ سائل نے مزید پوچھا کہ : کیا عشرہ ذی الحج کے ایام میں بھی ؟ تو شیخ البانی رحمہ اللہ نے فرمایا: عشرہ ذی الحج کے ایام میں بھی ایسے ہی تکبیر کہی جائے گی
[الشريط: 410 ، الدقيقة: 00:36:12]
نوٹ:-
واضح رہے کہ کسی عمل کو ”بدعت“ کہنے میں اور کسی عامل کو ”بدعتی“ کہنے میں بڑا فرق ہے ۔
علامہ مقبل بن هادي الوادعي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وهنا أمر أريد أن أنبه عليه وهو ما اعتاده الناس عقب الصلوات من يوم النحر بعد الفجر إلى آخر أيام التشريق ، عقب الصلوات أنهم يكبرون ، وهذا ليس بمشروع ، بل التكبير مطلق ، أعني أنك تبدأ عقب الصلوات بالأذكار المشروعة التي تقال عقب الصلوات ثم تكبر سواء عقب الصلوات أم في الضحى أم في نصف النهار ، أو آخر النهار ، أم في نصف الليل ، لكن ليست له كيفية عن النبيﷺ ، ولا يخص عقب الصلوات.

یہاں میں ایک چیز پر تنبیہ کرنا چاہتاہوں وہ یہ کہ یوم النحر کے دن فجر کے بعد سے لیکر تشریق کے آخری دن تک نمازوں کے بعد تکبیر کہنے کا جولوگوں کا معمول ہے ، یہ غیرمشروع ہے ، کیونکہ اس کا کوئی خاص وقت نہیں ہے ، یعنی نمازوں کے بعد پہلے مشروع اذکار پڑھیں ، پھر تکبیر پڑھیں ، خواہ نمازوں کے بعد ، یا چاشت کے بعد ، یا دوپہر کے بعد ، یا شام کو یا آدھی رات کو ، لیکن نبی ﷺ سے اس کی کوئی مخصوص کیفیت منقول نہیں اور نہ ہی نمازوں کے بعد اس کا خاص وقت ہے
[قمع المعاند 2 / 365 – 366]
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”لم يرد عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نص صحيح صريح في باب التكبير المقيد، لكنه آثار واجتهادات من العلماء“

تکبیرات مقید کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بھی صحیح اور صریح نص ثابت نہیں ہے ، یہ بعض آثار اور اہل علم کے اجتہادات ہیں.
[مجموع فتاوى ورسائل العثيمين 16/ 261]

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ