سوال (1551)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں :

“تَجَشَّأَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ كُفَّ عَنَّا جُشَاءَكَ فَإِنَّ أَكْثَرَهُمْ شِبَعًا فِي الدُّنْيَا أَطْوَلُهُمْ جُوعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ” [سنن الترمذي : 2478]

«نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے ڈکار لیا، تو آپ نے فرمایا: تم اپنی ڈکار ہم سے دور رکھو اس لیے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پیٹ بھر کر کھانے والا قیامت کے دن سب سے زیادہ بھوکا رہے گا»
کیا یہ روایت صحیح ہے ؟

جواب

سند میں کلام ہے ، البتہ امام البانی رحمہ اللہ نے “سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ” میں اس کو ذکر کیا ہے ۔
باقی روایت کا مقصد یہ ہے کہ مقصد حیات کھانے کو نہ بنائیں ، عمومی طور پہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت و تعلیم یہ کہتی ہے کہ پیٹ کے تین حصے کریں ، ایک کھانے کا حصہ ، ایک پانی کا حصہ اور باقی ایک حصہ سانس لینے کا مقرر کریں ۔ جیسا کہ یہ بھی روایات میں آتا ہے کہ تین کا کھانا چار کو ، چار کا کھانا پانچ کو کافی ہوتا ہے ۔ جیسا کہ حدیث ہے کہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے ، یہ تمام ادلہ اس بات کی طرف ہیں کہ کھانا و خوراک انسان کی کم ہونی چاہیے ، لہذا یہ بسیار خوری اچھی نہیں ہے ، علامات الساعۃ میں سے ہے کہ لوگ موٹے ہو جائیں گے ، یہ بسیار خوری کی وجہ سے ہوگا ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ