سوال (3884)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل الرَّازِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا الْعَلَاءُ بْنُ صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمِنْهَالِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَلِيٌّ:‏‏‏‏ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَخُو رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا الصِّدِّيقُ الأَكْبَرُ لا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلا كَذَّابٌ، ‏‏‏‏‏‏صَلَّيْتُ قَبْلَ النَّاسِ بِسَبْعِ سِنِينَ. [سنن ابن ماجہ: 120]

عباد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ علی ؓ نے کہا: میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول ﷺ کا بھائی ہوں، اور میں صدیق اکبر ہوں، میرے بعد اس فضیلت کا دعویٰ جھوٹا شخص ہی کرے گا، میں نے سب لوگوں سے سات برس پہلے نماز پڑھی۔
کیا یہ روایت صحیح ہے؟

جواب

یہ روایت ضعیف ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

یہ روایت مصنف ابن أبي شيبة :(34255)،فضائل الصحابة لأحمد:(993) ،سنن ابن ماجہ :(120)،السنة لابن أبي عاصم:(1324)، خصائص علي:(7) اور اسی کتاب میں نمبر 8 پر دوسری سند سے اور یہ سند بھی ضعیف ہے)،تاریخ الطبری:2/ 310
یہ روایت سندا سخت ضعیف اور متن کے اعتبار سے منکر و باطل ہے۔
المنتخب من علل الخلال میں ہے۔

ﻗﺎﻝ اﻷﺛﺮﻡ: ﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻋﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﻋﻠﻲ “ﺃﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻭﺃﺧﻮ ﺭﺳﻮﻟﻪ ﻭﺃﻧﺎ اﻟﺼﺪﻳﻖ اﻷﻛﺒﺮ
ﻓﻘﺎﻝ: اﺿﺮﺏ ﻋﻠﻴﻪ؛ ﻓﺈﻧﻪ ﺣﺪﻳﺚ ﻣﻨﻜﺮ، المنتخب من علل الخلال: (114)
ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ اﻻﺛﺮﻡ: ﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻋﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﻋﻠﻰ ” ﺃﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻭﺃﺧﻮ ﺭﺳﻮﻟﻪ ﻭﺃﻧﺎ اﻟﺼﺪﻳﻖ اﻷﻛﺒﺮ ” ﻓﻘﺎﻝ اﺿﺮﺏ ﻋﻠﻴﻪ ﻓﺈﻧﻪ ﺣﺪﻳﺚ ﻣﻨﻜﺮ، الموضوعات:1/ 341

حافظ ابن جوزی کا بھی اسے امام أثرم کی روایت سے نقل کرنا بتاتا ہے کہ حافظ ابن جوزی کے سامنے اس کی اصل موجود تھی۔
حافظ ابن جوزی نے کہا:
ﻭﻫﺬا ﻣﻮﺿﻮﻉ ﻭاﻟﻤﺘﻬﻢ ﺑﻪ ﻋﺒﺎﺩ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ،
الموضوعات:1/ 341
الفوائد المجموعة:ص: 344 میں لکھا ہے,

ﻭﻓﻲ ﺇﺳﻨﺎﺩﻩ: ﻋﺒﺎﺩ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻷﺳﺪﻱ، ﻭﻫﻮ اﻟﻤﺘﻬﻢ ﺑﻮﺿﻌﻪ.
ﻭﻗﺎﻝ اﺑﻦ اﻟﻤﺪﻳﻨﻲ: ﺿﻌﻴﻒ اﻟﺤﺪﻳﺚ.
ﻭﺫﻛﺮﻩ اﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ﻓﻲ اﻟﺜﻘﺎﺕ ،
ﻭﻗﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﻤﻴﺰاﻥ: ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻛﺬﺏ ﻋﻠﻰ ﻋﻠﻲ. ﻭﻗﺪ ﺃﺧﺮﺟﻪ اﻟﺤﺎﻛﻢ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺘﺪﺭﻙ. ﻭﻗﺎﻝ: ﺻﺤﻴﺢ ﻋﻠﻰ ﺷﺮﻁ اﻟﺸﻴﺨﻴﻦ. ﻭﺗﻌﻘﺒﻪ اﻟﺬﻫﺒﻲ ﺑﺄﻥ ﻋﺒﺎﺩا: ﺿﻌﻴﻒ،

اس روایت کو حافظ نے عباد ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻷﺳﺪﻱ کے ترجمہ میں نقل کیا اور کہا:

ﻗﻠﺖ: ﻫﺬا ﻛﺬﺏ ﻋﻠﻰ ﻋﻠﻲ، میزان الاعتدال :2/ 368((4126)

حافظ ذہبی نے ہی کہا:
ﺣﺪﻳﺚ ﺑﺎﻃﻞ ﻓﺘﺪﺑﺮﻩ، تلخيص المستدرك:(4584)
فائدہ: حاکم نے کئی ایک موضوع اور سخت ضعیف روایات پر صحیح کا حکم لگایا ہے لہذا اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے ہے۔
امام عقیلی نے اس روایت کو عباد بن عبد الله کے ترجمہ میں ذکر کر کے اس کا غیر ثابت ہونا واضح کر دیا ہے
اور آخر پر کہتے ہیں:

اﻟﺮﻭاﻳﺔ ﻓﻲ ﻫﺬا ﻓﻴﻬﺎ ﻟﻴﻦ، الضعفاء الكبير للعقيلى :3/ 137

میں کہتا ہوں یہ روایت جمیع اسانید کے ساتھ سخت ضعیف اور متن اس کا منکر وباطل ہے.
امام بخاری عباد کے بارے کہتے ہیں:
ﻓﻴﻪ ﻧﻈﺮ، التاريخ الكبير للبخارى :6/ 32
اور امام بخاری جب کسی راوی کے بارے میں فيه نظر کہہ دیں تو مطلب یہ ہے کہ وہ سخت ضعیف اور غرائب لانے والا راوی ہے۔
امام ابن عدی نے اسے الکامل في ضعفاء الرجال:(1174) میں لا کر بتا دیا کہ یہ ضعیف راوی ہے۔
یاد رہے اس کتاب میں ذکر کردہ ہر راوی مطلقا ضعیف نہیں ہے بلکہ کئی روات ثقہ، صدوق کے مرتبہ پر ہیں۔

ﻭﺫﻛﺮﻩ اﺑﻦ اﻟﺠﺎﺭﻭﺩ ﻓﻲ ﺟﻤﻠﺔ اﻟﻀﻌﻔﺎء، إكمال تهذيب الكمال :7/ 177
ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﺰﻡ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺑﻪ “اﻟﻤﺤﻠﻰ” ﻭﻋﺒﺎﺩ ﻫﺬا ﻣﺠﻬﻮﻝ ﺑﺎﻟﻨﻘﻞ.
ﻭﻓﻲ ﻛﺘﺎﺏ ﺃﺑﻲ اﻟﻔﺮﺝ اﻟﺒﻐﺪاﺩﻱ: ﺭﻭﻯ ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ ﻻ ﻳﺘﺎﺑﻊ ﻋﻠﻴﻬﺎ، ﻭﻗﺎﻝ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ اﻟﻤﺪﻳﻨﻲ: ﺿﻌﻴﻒ اﻟﺤﺪﻳﺚ.
ﻭﻓﻲ ﻛﺘﺎﺏ ” اﻟﻤﻮﺿﻮﻋﺎﺕ “: ﻛﺎﻥ ﻣﺘﻬﻤﺎ ﻭﺿﺮﺏ اﻹﻣﺎﻡ ﺃﺣﻤﺪ ﻋﻠﻰ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﺃﻧﺎ اﻟﺼﺪﻳﻖ اﻷﻛﺒﺮ ” ﻭﻗﺎﻝ: ﻫﻮ ﻣﻨﻜﺮ، إكمال تهذيب الكمال :7/ 177

شیخ عبدالعزیز بن عبد الله الراجحى شرح سنن ابن ماجہ میں اس روایت کے تحت لکھتے ہیں:
هذا باطل، هذا السند ضعيف ومتنه باطل منكر لا يصح، والصديق الأكبر هو أبو بكر، وليس علياً۔
اور یہ عقیدہ خیر القرون وبعد کے ادوار میں بالاتفاق موجود تھا کہ صدیق اکبر صرف سیدنا ابو بکر صدیق رضی الله عنہ ہیں آپ کتب احادیث کا مطالعہ کریں گے تو دیکھیں گے کہ بیسیوں روایات میں صرف سیدنا ابو بکر رضی الله عنہ کو ہی صدیق کہا گیا اور کہا جاتا تھا۔
صحیح البخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

اﺛﺒﺖ ﺃﺣﺪ ﻓﺈﻧﻤﺎ ﻋﻠﻴﻚ ﻧﺒﻲ، ﻭﺻﺪﻳﻖ، ﻭﺷﻬﻴﺪاﻥ،صحیح البخاری :(3675)

اور اس حدیث میں سیدنا ابو بکر رضی الله عنہ کا نام موجود ہے۔

ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ، ﻗﺎﻝ: ﺻﻌﺪ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺇﻟﻰ ﺃﺣﺪ ﻭﻣﻌﻪ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ، ﻭﻋﻤﺮ، ﻭﻋﺜﻤﺎﻥ، ﻓﺮﺟﻒ ﺑﻬﻢ، ﻓﻀﺮﺑﻪ ﺑﺮﺟﻠﻪ، ﻗﺎﻝ: اﺛﺒﺖ ﺃﺣﺪ ﻓﻤﺎ ﻋﻠﻴﻚ ﺇﻻ ﻧﺒﻲ، ﺃﻭ ﺻﺪﻳﻖ، ﺃﻭ ﺷﻬﻴﺪاﻥ، صحیح البخاری :(3686)

سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں:

ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﺃﻥ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ الصديق ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﺑﻌﺜﻪ،صحیح البخاری :(4363)

ایک روایت میں ہے۔

ﻓﺄﺗﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﺇﻟﻰ ﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮ الصديق، صحیح البخاری: (334)

اس طرح کی کئی روایات صحیحین وغیرہ میں موجود ہیں۔
فائدہ 1: ائمہ محدثین موضوع کی مناسبت سے صحیح روایات کے ساتھ غیر ثابت روایات لے کر اس لئے آتے ہیں تا کہ جان لیا جائے کہ اس مسئلہ اور موضوع میں یہ غیر ثابت روایات بھی موجود ہیں اور کبھی صرف غیر ثابت روایات یا روایت کو لے کر اس لئے آتے ہیں تا کہ یہ معلوم ہو کہ اس مسئلہ میں صرف یہی غیر ثابت روایت ہے یا کبھی اس لئے ایسی روایت لے آتے ہیں کہ اس کی تائید معنوی عموم سے ہو رہی ہوتی ہے تو یہاں اس باطل روایت کو لانا یہ بتانے کے لئے ہے کہ اس موضوع میں یہ روایت موجود ہے مگر منکر وباطل ہے یعنی صرف معرفت و پہچان کے طور پر لائی گئ ہے۔
فائدہ 2: امیر المومنین سیدنا علی المرتضی رضی الله عنہ کے فضائل ومناقب اور عظمت پر قرآن وحدیث میں کئی ایک دلائل موجود ہیں اس لئے وہ من گھڑت ومنکر روایات کے ذریعے بیان کردہ فضائل کے محتاج نہیں ہیں اور یہ کہ زندگی میں انہوں نے کبھی خود کو صدیق اکبر کہا یا کہلوایا ہو یہ بھی باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔
رب العالمین ہمیں عدل وانصاف اور اعتدال کے ساتھ حق پر قائم رکھیں اور ہم سب کا خاتمہ ایمان وتقوی پر فرمائیں۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ