کس کی سربلندی کے لیے اتحاد؟

اتنی ترجیحات سامنے آگئی ہیں، اتنے دائرے ایجاد کرلیے گئے ہیں، اتنے اعذرا تراش اور مصلحتیں گھڑ لی گئی ہیں کہ ’اسلام کی سربلندی‘ کے لیے محنتوں اور کاوشوں میں اسلام کا جھنڈا مسلسل سرنگوں ہورہا ہے۔
اتحاد دین اسلام کی سربلندی کے لیے ہو ، تواس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں کہ یہ لائق تحسین قدم ہے۔
لیکن یہ کیسا اتحاد اور کس اسلام کی سربلندی ہے کہ ایک طرف تو شیعہ سنی ’ اکو مکو ‘ ہورہے ہیں ، اور دوسری طرف ایک ہی باپ کے دو بیٹے یا ایک ہی منہج و مسلک کا دعوی کرنے والی دو جماعتوں میں بعد المشرقین نظر آتا ہے۔
آج جس سیاست نے بہت سوں کو ایک جھںڈے تلے جمع کرلیا ہے ،کل اسی سیاست نے حلقہ 120 میں اہل حدیثوں کو ہی آپس میں لڑوا دیا تھا۔ اور لڑایا بھی ایسا کہ دونوں سمجھ رہے تھے کہ ہمیں ووٹ دینا دینی غیرت اور اسلام کی سربلندی کا تقاضا ہے۔
کل تک جو لوگ مرکز کے اسٹیجوں پر شیعہ مقررین دیکھ دکھا کر طوفان کھڑا کیے ہوئے تھے ، آج اپنے قائدین کو شیعہ کے پہلو میں دکھا کر اسلام کی سربلندی کے ترانے گارہے ہیں۔
کل تک اپنے جلسے جلوس کو شیعہ رافضیوں سے رونق بخشنے والے ، اور درگاہوں سے چندے اکٹھے کرنے والے ، متحدہ مجلس عمل کے قائدین کی تصویروں پر منہجی تبصرے کرنے کا شوق پورا کر رہے ہیں، اور یہ سب کچھ صرف اس لیے کہ اس میں ان کے محبوب امیر المجاہدین نہیں ہیں ، ورنہ یہی جیالے ان تصویروں کو غلبہ اسلام کی تحریک کی طرح پھیلاتے ہوئے نظر آتے۔ اور ادھر سے بھی جلسے جلوس پر اس لیے اعتراض ہوا کرتا تھا کہ اس میں ساری دنیا آئی ہے ، لیکن قائد ملت سلفیہ کا خطاب نہیں ہے۔
کافی عرصہ جمہوریت کا حلال و حرام بھی نزاع کا ایک بہانہ رہا، اب دھکے سے وہ بھی ختم کروادیا گیاہے۔ لیکن اس کےباوجود متحدہ مجلس عمل میں سب جماعتیں شریک نہ ہوسکیں ، یہ بذات خود اس اتحاد پر سوالیہ نشان ہے۔
ہمارے کجھ بھائی ایسے بھی ہیں، جو بعض دفعہ مولانا مودودی اور اس قسم کے مفکرین کو یاان کا دفاع کرنے والوں کو صرف اس لیے رگڑا مارہے ہوتے ہیں کہ مولانا مودودی نے خلافت و ملوکیت میں رافضیت و شیعیت والی زبان بولی ہے، جبکہ اب جب متحدہ مجلس عمل کے دائرے میں شیعہ داخل ہوئے ہیں، تو صحابہ کرام کے بارے میں ان بھائیوں کی نہ صرف یہ کہ غیرت نہیں جاگ رہی ، بلکہ الٹا جنہوں نے اس پر صدائے احتجاج بلند کی ہے ، انہیں یہ فرقہ واریت کو ہوا دینے والا کہہ رہے ہیں ۔ سبحان اللہ!
رولا منہج و مسلک اور اسلام کی سربلندی کا ہوتا ، تو پھر سب کے اتحاد میں کیا چیز مانع ہے؟!
لیکن یہ تو سیاسی جھگڑے ہیں، جس میں دونوں طرف سے جسے جو ہاتھ میں لگتا ہے ، اپنے ساتھ ملا لیتا ہے، اور پھر دونوں طرف سے دین اسلام کی سربلندی کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں، جس میں کوئی جیتے یا ہارے ، اسلام کی یقینی طور پر ہار ہی ہے۔ کیونکہ جتنی مرضی بصیرت کھلاریں، یا فلسفے چھوڑیں، سیدھی سی بات ہے اگر ہمارے مذہبی جماعتوں کے قائدین دین اسلام کی تعلیمات کی خلاف ورزی پر طوعا کرہا راضی ہورہے ہیں، تو پھر ایسی صورت حال میں بھی اس پر مصر رہنا کہ ’ اسلام پھیل رہا ہے ، اورابھر رہا‘ یہ سوائے اپنے آپ کو دھوکا دینے کے اور کچھ نہیں ۔
جب ساری مذہبی جماعتیں مل کر پلے کارڈ اٹھانے والی آنٹیوں، یا لا دینیت پھیلانے والے کسی ایک ٹی وی چینل کو بھی بند کروادیں گی، یا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عاصمہ جہانگیر جیسے لادین عناصر کے اعزازیے اور اکرامیے چھیننے میں کامیاب ہوجائیں گی تو ہم سمجھیں گے، کہ واقعتا اسلام کی سربلندی کے لیے کچھ ہورہا ہے ۔
ورنہ بظاہر یہی لگتا ہے کہ ہم شعوری لا شعوری طور پر دنیاوی مقاصد کے لیے دینی جذبات کو استعمال کرنے اور کروانے کے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
متحدہ مجلس عمل میں اب کی بار کچھ نئے نام سامنے آئے ہیں،جن سے کسی اور کو ہو نہ ہو، میرے جیسے کئی ایک لوگوں کو حسن ظن ہے، دیکھتے ہیں یہ حسن ظن کب تک برقرار رہتا ہے۔
اللہ اگر یہ اتحاد دین اسلام کی سربلندی کے لیے ہے تو اس کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو وہی سربلندی دے جو صلح حدیبیہ کے بعد ملی۔ ورنہ…… ہم سب کو ہدایت دے کہ یہ ذلت و پستی ہم سب کی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے۔​

ملی گناہ

پچھلے کچھ عرصے سے بعض قائدین کی تواتر سے خواتین کے ساتھ تصویریں منظر عام پر آئی ہیں۔
ان میں سب سے پہلے ایک دینی جماعت کے سیاسی بزرگ کی تصویر تھی، جس پر مجاہدین نے بہت شور کیا، کچھ عرصہ بعد ان تصویروں کی افادیت اللہ نے مجاہدین کے دل میں بھی بٹھادی ، اب خیر سے ایک مہینے کے مختصر عرصے کے اندر اندر اس جماعت کے تین لیڈروں کی تصویریں فیس بک وغیرہ پر خراج تحسین وصول کر چکی ہیں۔
اس قسم کی محفلوں میں غیر محرم عورت سے مصافحہ کرنا، اس کے سر پر لمس کرنا، یا اس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر گروپ فوٹو لینا، یہ علما یا طلبہ علم کے ہاں توبالکل متفقہ طور پر غیر شرعی فعل ہے،اور جس نے بھی یہ کام کیا، اس نے حرام کا ارتکاب کیا ہے۔ شاید کچھ جہلا ہی ہوں گے جو اس کو جائز سمجھتے ہوں گے۔
اب دوسرا مسئلہ ہے، اس قسم کی تصویروں پر رد عمل کا۔
اس پر سب سے بہترین طریقہ تو یہی ہے کہ ان قائدین سے مل کر، یا پرسنل میں رابطہ کرکے اس کے متعلق ان کی رائے لی جائے،اور علما ان لوگوں کو سمجھائیں، کہ یہ کام درست نہیں، دین اسلام میں ایسی کوئی اجازت موجود نہیں۔ میرے علم میں نہیں کہ کسی عالم دین نے یہ کام سرانجا دیا ہے کہ نہیں۔
البتہ کچھ علماء کرام کی طرف سے سوشل میڈیا وغیرہ پر نام لیے بغیر اس فعل کی مذمت کی گئی ہے۔( گو کئی لوگوں کو یہ بھی ہضم نہیں ہوئی)
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جس سوشل میڈیا پر یہ تصویریں نشر ہوئیں، وہیں پر آپ ان کی مذمت کردیں، نفرت کا اظہار کریں، براءت کا اظہار کریں۔ کیونکہ برائی جس منظر میں عام ہوئی ہے اس کی تردید بھی وہاں ہو تواس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔
ایک اہم معاملہ یہ رہ جاتا ہے، کہ اگر کوئی غلط تصویریں نشر کرتا ہے ، تو اس پر انکار کے لیے انہیں غلط تصویروں کو دوبارہ نشر کیا جائے گا؟ کچھ لوگوں نے اس کام کو بذات خود ایک منکر قرار دیا ہے ۔ یہ رائے وجیہ ہے، اس پر غور و فکر کیا جاسکتا ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ کچھ لوگ اس آخری رویے پر تنقید کرکے راضی ہوجاتے ہیں، جو لوگ حقیقت میں ان چیزوں کا سبب بنتے ہیں، ان کے ہاں احتجاج ریکارڈ نہیں کرواتے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد کوئی نیا شوشہ پھرسے سامنے آجاتا ہے۔
آپ دیکھیے وہ کام جو ہم سب کے نزدیک حرام اور غیر شرعی ہے، یعنی اسلامی جماعتوں کے قائدین اور دیندار لوگوں کا خواتین کے ساتھ تصویریں اتروا کر نشر کرنا، اس پر ہونے والا رد عمل تو ہم درست نہیں سمجھتے ، تو پھر ہم نے درست رد عمل کیا دیا ہے؟
اور اگر یہ رد عمل بھی نہ ہو ، جو کچھ لوگوں کی نظر میں غلط ہے ، تو پھر بتائیے کہ اس برے کی کام کی مذمت کس نے کرنی ہے؟ اور اگر کوئی مذمت نہیں ہے ، تو مطلب ہم سب کا یہ ’ اجماع سکوتی‘ ہے کہ ایسے کام اسلام کی سربلندی اور مصلحت کے لیے جائز ہو گئے ہیں؟
فطرت افراد سے اغماض تو کرلیتی ہے
کرتی نہیں مگر ملت کو گناہوں کو معاف
خلاصہ یہ ہے کہ آپ کو کسی کے رد عمل کے طریقہ کار سے اتفاق ہے کہ نہیں ہے، آپ اس پر بھی تنقید کریں ، سمجھائیں، لیکن بذات خود بھی ان برائیوں پر مناسب رد عمل دیں، ان کی مذمت کریں، احتجاج ریکارڈ کروائیں۔
ان مسائل کے شرعی احکامات پر مبنی قرآن وسنت کی نصوص کو عام کریں، لوگ اس وقت جماعتوں کو رو رہے ہیں، جبکہ حقیقت میں ’ اسلامی تشخص‘ کو خطرہ ہے، افراد اور جماعتوں سے بڑھ کر اس اسلامی تشخص کو بچانے کی ضرورت ہے۔
ممکن ہے مجھے کسی جماعت یا اس کے فرد سے کوئی خار ہو، اور میں ان کی برائیوں یا عیوب کو اپنے دل کی تسکین یا غضب کی تشفی کے لیے استعمال کر رہا ہوں گا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ برائیاں اب اچھائیاں بن گئی ہیں، اور اگر کسی نے اس پر آپ کی سوچ کے مطابق رد عمل نہیں دیا تو آپ اس کا بہانہ کرکے برائی کے خلاف کچھ کہنے کی بجائے، ادھر ادھر کے محاذ کھول کر بیٹھ جائیں۔
’ مجاہرۃ بالاثم‘ کی ان صورتوں پر رد عمل اور احتجاج ریکارڈ کروائیں، اور ساتھ لوگوں کے غلط رد عمل کی بھی مذمت کریں۔ ایسی تحریریں ہم سب مل جل کر شیئر کریں گے۔إن شاءاللہ۔
نوٹ:
یہاں ایک عرض ان خیر خواہوں کے لیے بھی لگانا چاہتاہوں، جو مجھے گاہے بہ گاہے یہ یاد دلاتے ہیں کہ آپ مدینہ منورہ میں ہیں، بڑی مقدس جگہ پر ہیں، وہاں سے یہ کام نہ کریں،آپ علم کی طرف توجہ دیں، اور اس قسم کی باتیں۔۔۔ ان کا میں شکر گزار ہوں، لیکن ان سے گزارش ہے کہ اگر لاہور کراچی و اسلام آباد والے یہ کام سرانجام دے لیں، تو مدینے والوں کو یہ کام کرنے کی حاجت نہیں رہے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میدان میں جہلاء اور اندھے لوگوں کی بھرمار ہے، انسان بعض دفعہ رد عمل میں غلط طرف نکل جاتا ہے، اس لیے میں اس قسم کی سرگرمیوں کو کم سے کم کردینا چاہتا ہوں لیکن یہ کام بہرصورت کسی نہ کسی کو کرنا ہی ہے۔ اللہ توفیق دے۔​