سوال (2331)

“انما بعثت معلما” کیا یہ حدیث ہے یا قول ہے؟

جواب

“إنما بُعِثتُ مُعَلِّمًا” [سنن ابن ماجہ: 299]

’«مجھے علم سکھانے والا یعنی اُستاد بنا کر بھیجا گیا ہے»
یہ فرمان متعدد کتب ِحدیث میں ایک لمبی روایت کے آخر میں بیان ہوا ہے، لیکن تمام روایات کی اسناد ضعف سے خالی نہیں ہے، بہرحال اس حدیث کے مفہوم کی تائید اور تشریح دیگر احادیث اور قرآن کی اس آیت سے ہوتی ہے:

“وَیُعَلِّمهمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمةَ” [البقرۃ: 129]

«آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔»

فضیلۃ العالم عبداللہ عزام حفظہ اللہ

الشیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی پہلے اسے سلسلہ ضعیفہ [رقم: 101] میں اسے ضعیف کہا تھا، لیکن بعد میں اس سے رجوع کر لیا اور اسے سلسلہ صحیحہ [رقم: 3599] میں بیان کیا ہے، وہاں تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔
صحیح مسلم میں ایک لمبی حدیث کے آخر میں الفاط ہیں:

“بَعَثَنِي مُعَلِّمًا مُيَسِّرًا” [رقم: 3690]

لہذا یہ جملہ مرفوعاً ثابت ہے۔

فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ

اگرچہ اس متن کی اسانید میں اسباب ضعف موجود ہیں لیکن قرآن وحدیث کے عمومی ادلہ سے اس کی پوری تائید ہوتی ہے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے بنیادی مقاصد میں سے اہم ترین مقصد آپ کا لوگوں کو کتاب وسنت کی تعلیم دینا تھا۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس مبارک دعا پر غور فرمائیں:

“رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ” [البقرہ: 129]

«اے ہمارے رب! اور ان میں انھی میں سے ایک رسول بھیجیں جو ان پر آپ کی آیتیں پڑھیں اور انھیں کتاب و حکمت سکھائیں اور انھیں پاک کریں، بے شک آپ ہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہیں»
باری تعالی نے اس عظیم الشان منصب کو یوں بیان فرمایا ہے:

“لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ” [آل عمران: 164]

«بلاشبہ یقیناً الله نے ایمان والوں پر احسان فرمایا جب اس( ان الله تعالى )نے ان میں ایک رسول انھی میں سے بھیجے، جو ان پر اس( ان) کی آیات پڑھتے اور انھیں پاک کرتے اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتے ہیں ، حالانکہ بلاشبہ وہ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں تھے»
اور دیکھیے [سورۃ الجمعہ: 2]
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا مبارک سے معلوم ہوا کہ آپ رب العالمین سے سب سے عظمت والی جگہ پر تشریف فرما ہو کر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے معلم الخیر،معلم اعظم بنا کر بھیجے جانے کی دعا فرما رہے ہیں جو بلاشبہ باری تعالی نے قبول فرمائی۔
دوسری آیت سے معلوم ہوا کہ رب العالمین نے اہل ایمان پر خاص کرم وفضل فرمایا کہ انہیں سب سے زیادہ شان وعظمت اور اوصاف جمیلہ والے
نبی ورسول سے نواز جن کی صفات عالیہ میں سے ایک صفت “وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ” بیان کی گئی ہے۔
تو یہ دو مبارک آیتیں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے معلم اور استاذ اعظم بنا کر مبعوث کیے جانے پر واضح دلیلیں ہیں
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

“ﺇﻥ اﻟﻠﻪ ﻟﻢ ﻳﺒﻌﺜﻨﻲ ﻣﻌﻨﺘﺎ، ﻭﻻ ﻣﺘﻌﻨﺘﺎ، ﻭﻟﻜﻦ ﺑﻌﺜﻨﻲ ﻣﻌﻠﻤﺎ ﻣﻴﺴﺮا”

بے شک الله تعالی نے مجھے سختی کرنے والا اور لوگوں کے لیے مشکلات تلاش کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا، بلکہ الله نے مجھے تعلیم دینے والا اور آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔
[صحیح مسلم كتاب الطلاق: 1478 ،مسند أحمد بن حنبل: 14515 ،السنن الكبرى للنسائى: 9164، مسند أبی یعلی: 2253 صحيح أبي عوانة: 4587 سنده صحيح]
سیدنا معاویہ بن الحکم السلمی رضی الله عنہ سے سنیے وہ کیا فرماتے ہیں:
آپ نے فرمایا:

ﻓﺒﺄﺑﻲ ﻫﻮ ﻭﺃﻣﻲ، ﻣﺎ ﺭﺃﻳﺖ ﻣﻌﻠﻤﺎ ﻗﺒﻠﻪ ﻭﻻ ﺑﻌﺪﻩ ﺃﺣﺴﻦ ﺗﻌﻠﻴﻤﺎ ﻣﻨﻪ، ﻓﻮاﻟﻠﻪ، ﻣﺎ ﻛﻬﺮﻧﻲ ﻭﻻ ﺿﺮﺑﻨﻲ ﻭﻻ ﺷﺘﻤﻨﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺇﻥ ﻫﺬﻩ اﻟﺼﻼﺓ ﻻ ﻳﺼﻠﺢ ﻓﻴﻬﺎ ﺷﻲء ﻣﻦ ﻛﻼﻡ اﻟﻨﺎﺱ، ﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ اﻟﺘﺴﺒﻴﺢ ﻭاﻟﺘﻜﺒﻴﺮ ﻭﻗﺮاءﺓ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﺃﻭ ﻛﻤﺎ ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ

میرے ماں باپ آپ پرقربان !میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے پہلے اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بعد آپ سے بہتر کوئی ( باکمال شان والا) معلم نہیں دیکھا ! الله کی قسم !نہ تو آپ صلى الله عليه وسلم نے مجھے ڈانٹا، نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا کہا۔ بلکہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ( صرف یوں ) فرمایا:یہ نماز ہے اس میں کسی قسم کی دنیاوی گفتگو روا اور جائز نہیں ہے بلاشبہ یہ نماز تو بس تسبیح و تکبیر اور قرآن کی تلاوت کیے جانے والی عبادت ہے ( یعنی نماز میں صرف رب العالمین کی تسبیح وتقدیس سورۃ الفاتحہ ،قرآن کریم سے جو آسان لگے اس کی تلاوت اور جملہ احکام کو خشوع وخضوع کے ساتھ بجا لانا ہے) ۔یا جیسے رسو ل الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا۔

[صحیح مسلم ﺑﺎﺏ ﺗﺤﺮﻳﻢ اﻟﻜﻼﻡ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ، ﻭﻧﺴﺦ ﻣﺎ ﻛﺎﻥ ﻣﻦ ﺇﺑﺎﺣﺘﻪ: 537 ،مسند أحمد بن حنبل: 23765 ،سنن نسائی: 1228 ،المنتقی لابن الجارود: 212 ﺑﺎﺏ اﻷﻓﻌﺎﻝ اﻟﺠﺎﺋﺰﺓ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﻭﻏﻴﺮ اﻟﺠﺎﺋﺰﺓ،صحيح ابن خزيمة : 859 ﺑﺎﺏ ﺫﻛﺮ اﻟﻜﻼﻡ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﺟﻬﻼ ﻣﻦ اﻟﻤﺘﻜﻠﻢ ﻭاﻟﺪﻟﻴﻞ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ اﻟﻜﻼﻡ ﻻ ﻳﻘﻄﻊ اﻟﺼﻼﺓ ﺇﺫا ﻟﻢ ﻳﻌﻠﻢ اﻟﻤﺘﻜﻠﻢ ﺃﻥ اﻟﻜﻼﻡ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﻣﺤﻈﻮﺭ ﻏﻴﺮ ﻣﺒﺎﺡ وغيره]
ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﺇﻧﻤﺎ ﺃﻧﺎ ﻟﻜﻢ ﻣﺜﻞ اﻟﻮاﻟﺪ، ﺃﻋﻠﻤﻜﻢ

سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
بے شک میں تمہارے لیے باپ کی مثل ہوں ( دوسرے طریق میں ہے جیسے ایک باپ اپنے بچوں کے لیے ہوتا ہے) میں تمہیں (بظاہر معمولی خیال کیے جانے والے امور کی بھی) تعلیم دیتا ہوں۔
[مسند أحمد بن حنبل : 7409 واللفظ له ،سنن ابن ماجه: 313 ،سنن نسائی: 40 ،مسند الحمیدی: 1018 ،مسند الشافعی: 33 ،صحیح ابن خزیمة: 80 وغیرہ سنده حسن لذاته] ابن عجلان کے سماع کی صراحت مسند أحمد بن حنبل ،سنن نسائی میں موجود ہے۔
امام أبو حاتم صاحب الصحيح والثقات وغيره نے ایک حدیث کے بعد یوں عمدہ توضیح فرمائی ہے:
فرمایا:

ﻛﺎﻥ اﻟﻤﺼﻄﻔﻰ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﺴﺘﻐﻔﺮ ﺭﺑﻪ ﺟﻞ ﻭﻋﻼ ﻓﻲ اﻷﺣﻮاﻝ ﻋﻠﻰ ﺣﺴﺐ ﻣﺎ ﻭﺻﻔﻨﺎﻩ، ﻭﻗﺪ ﻏﻔﺮ اﻟﻠﻪ ﻟﻪ ﻣﺎ ﺗﻘﺪﻡ ﻣﻦ ﺫﻧﺒﻪ ﻭﻣﺎ ﺗﺄﺧﺮ، ﻭﻻﺳﺘﻐﻔﺎﺭﻩ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﻌﻨﻴﺎﻥ: “ﺃﺣﺪﻫﻤﺎ ﺃﻥ اﻟﻠﻪ ﺟﻞ ﻭﻋﻼ ﺑﻌﺜﻪ ﻣﻌﻠﻤﺎ ﻟﺨﻠﻘﻪ ﻗﻮﻻ ﻭﻓﻌﻼ، ﻓﻜﺎﻥ ﻳﻌﻠﻢ ﺃﻣﺘﻪ اﻻﺳﺘﻐﻔﺎﺭ ﻭاﻟﺪﻭاﻡ ﻋﻠﻴﻪ، ﻟﻤﺎ ﻋﻠﻢ ﻣﻦ ﻣﻘﺎﺭﻓﺘﻬﺎ اﻟﻤﺂﺛﻢ ﻓﻲ اﻷﺣﺎﻳﻴﻦ ﺑﺎﺳﺘﻌﻤﺎﻝ اﻻﺳﺘﻐﻔﺎﺭ”
ﻭاﻟﻤﻌﻨﻰ اﻟﺜﺎﻧﻲ: ﺃﻧﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﻳﺴﺘﻐﻔﺮ ﻟﻨﻔﺴﻪ ﻋﻦ ﺗﻘﺼﻴﺮ اﻟﻄﺎﻋﺎﺕ ﻻ اﻟﺬﻧﻮﺏ، ﻷﻥ اﻟﻠﻪ ﺟﻞ ﻭﻋﻼ ﻋﺼﻤﻪ ﻣﻦ ﺑﻴﻦ ﺧﻠﻘﻪ، ﻭاﺳﺘﺠﺎﺏ ﻟﻪ ﺩﻋﺎءﻩ ﻋﻠﻰ ﺷﻴﻄﺎﻧﻪ ﺣﺘﻰ ﺃﺳﻠﻢ، ﻭﺫاﻙ ﺃﻥ ﻣﻦ ﺧﻠﻖ اﻟﻤﺼﻄﻔﻰ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﺇﺫا ﺃﺗﻰ ﺑﻄﺎﻋﺔ ﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ ﺩاﻭﻡ ﻋﻠﻴﻬﺎ ﻭﻟﻢ ﻳﻘﻄﻌﻬﺎ، ﻓﺮﺑﻤﺎ ﺷﻐﻞ ﺑﻄﺎﻋﺔ ﻋﻦ ﻃﺎﻋﺔ ﺣﺘﻰ ﻓﺎﺗﺘﻪ ﺇﺣﺪاﻫﻤﺎ، ﻛﻤﺎ ﺷﻐﻞ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻋﻦ اﻟﺮﻛﻌﺘﻴﻦ اﻟﻠﺘﻴﻦ ﺑﻌﺪ اﻟﻈﻬﺮ ﺑﻮﻓﺪ ﺗﻤﻴﻢ، ﺣﻴﺚ ﻛﺎﻥ ﻳﻘﺴﻢ ﻓﻴﻬﻢ ﻭﻳﺤﻤﻠﻬﻢ ﺣﺘﻰ ﻓﺎﺗﺘﻪ اﻟﺮﻛﻌﺘﺎﻥ اﻟﻠﺘﺎﻥ ﺑﻌﺪ اﻟﻈﻬﺮ، ﻓﺼﻼﻫﻤﺎ ﺑﻌﺪ اﻟﻌﺼﺮ، ﺛﻢ ﺩاﻭﻡ ﻋﻠﻴﻬﻤﺎ ﻓﻲ ﺫﻟﻚ اﻟﻮﻗﺖ ﻓﻴﻤﺎ ﺑﻌﺪ، ﻓﻜﺎﻥ اﺳﺘﻐﻔﺎﺭﻩ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﺘﻘﺼﻴﺮ ﻃﺎﻋﺔ ﺃﻥ ﺃﺧﺮﻫﺎ ﻋﻦ ﻭﻗﺘﻬﺎ ﻣﻦ اﻟﻨﻮاﻓﻞ ﻻﺷﺘﻐﺎﻟﻪ ﺑﻤﺜﻠﻬﺎ ﻣﻦ اﻟﻄﺎﻋﺎﺕ اﻟﺘﻲ ﻛﺎﻥ ﻓﻲ ﺫﻟﻚ اﻟﻮﻗﺖ ﺃﻭﻟﻰ ﻣﻦ ﺗﻠﻚ اﻟﺘﻲ ﻛﺎﻥ ﻳﻮاﻇﺐ ﻋﻠﻴﻬﺎ، ﻻ ﺃﻧﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﻳﺴﺘﻐﻔﺮ ﻣﻦ ﺫﻧﻮﺏ ﻳﺮﺗﻜﺒﻬﺎ [صحیح ابن حبان: 928]

اس عبارت کے بریکٹ والے الفاظ پر غور کریں
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ بے مثل، باکمال معلم رشد وہدایت تھے دنیا میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جیسا کوئی معلم نہ پیداہوا نہ ہی کبھی ہو سکتا ہے، جیسے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارک لاثانی تھی اس سے بڑھ کر آپ کی صفات عالیہ بے مثل، بے مثال اور لاثانی تھیں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے معلم انسانیت میں جو کمال وجمال تھا اسے جاننے کے لیے کتب سنن وصحاح ومسانید ومعاجم وغیرہ کا مطالعہ کریں یا اردو میں ڈاکٹر فضل الٰہی ظہیر صاحب کی مفید ترین کتاب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم بحیثیت معلم کا مطالعہ کریں ، مجھے اس مبارک کتاب کے مطالعہ کا بہت سال پہلے سے شرف حاصل ہے۔
بے شمار لا تعداد بار درود وسلام ہوں سیدنا، ومرشدنا،وامامنا وقائدنا ومعلمنا العظيم محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارک پر اور ان کی آل اولاد پر۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ