دینی پیغام پہنچانے کے لیے  جو طبقہ رہن سہن میں مغربی کلچر کا زیر اثر ہے۔ تعلیم اے او لیول ہے یا مغربی تعلیمی اداروں اور بیرون ملک کی ہے۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ انہیں دعوت دی ہی نہ جائے۔ جیسے ہے ویسے رہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ انہیں انہی کے طرز زندگی سے مثالیں دے کر  ان کے مسائل اور سماجی معاملات کو زیر بحث لا کر سمجھایا جائے۔ تبلیغ کی جائے  ہو سکے تو ماحول بھی وہی دیا جائے۔ اگر تو ان علاقوں میں آپ کے پاس اچھے اسلامک سینٹرز ہیں۔ مساجد ہیں تو ٹھیک ہے دوسری صورت میں اسی طبقے کے کمیونٹی سینٹرز، سیمینار ہالز، ہوٹلز آڈیٹوریمز میں مدعو کر لیا جائے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ ان کے حوالے سے یہ انتظار کیا جائے کہ وہ خودبخود ہی اردو پنجابی سیکھ کر آئیں اور دین سمجھنے کی کوشش کریں۔دوسری صورت یہ ہے کہ جو زبان ۔ انداز ۔ طرز زندگی انہیں آتا ہے اس میں ہی انہیں دعوت کا انتظام کیا جائے۔ اب یہاں سوال یہ ہے کہ اس کی تیاری کہاں کی جا رہی ہے ۔ کتنے علما ء و سکالرز اس کے لیے دستیاب ہیں ۔؟ کتنے اس طبقے سے مخاطب ہو سکتے ہیں ۔؟؟ اس کے لئے باقاعدہ سنجیدہ لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔
یہ ہرگز علماء کرام کی خدمات سے انکار، ان کو کسی کوتاہی کا طعنہ دینے، ان کی کاوشوں کو نظر انداز کرنے کا مسئلہ نہیں ۔ ان کی خدمات شاندار ہیں ۔ دین کا علم  فہم اور مسائل کا حل واقعی علماء کرام کے پاس ہے۔ لیکن آج کے سوشل میڈیا دور کی ضرورت کے مطابق انداز  مثالیں اور مختصر پیش کرنے کی کہیں پریکٹس ہی نہیں کرائی جا رہی۔ جب کچھ بویا ہی نہیں گیا تو کاٹا کیا جائے گا۔ یہ اس معاشرے کا ایک سلگتا مسئلہ ہے  کہیں نہ کہیں سب سے ہی کچھ کوتاہی ضرور ہوئی ہے۔ اس چیلنج کو سمجھنے میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہوا۔ اگر دینی طبقے نے ازخود اس کی تیاری نہیں کی تو چند ایسے لوگ آگے آئے ہیں جن کی کوشش اصلاح ہے۔ وہ ایک طبقے کو اچھائی کی طرف لانا چاہتے ہیں۔ وہ مختلف ناموں سے ہیں ۔ کچھ کسی تنظیم سے وابستہ کچھ الگ الگ ۔ ان سے غلطیاں ہو رہی ہیں۔ ان کا فہم کم ہے۔ وہ کئی مسائل میں الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ بڑے علماء نہیں ہیں۔ ان کی کم علمی میں کی گئی بات کو ” فتویٰ” قرار دے کر ڈسکس کرنا بھی کوئی مناسب بات نہیں۔ دراصل انہیں اپنے طبقے کے مسائل کا ادراک ہے اور انہی پر بات کرتے ہیں۔
تو کیا انہیں روک دیا جائے ۔ کتنے عرصے کے لیے ۔ کب تک روک دیا جائے ؟ کیا کہیں اس طبقے کی ضرورت کو سمجھا جا رہا ہے۔ کہیں مستند علماء کی ٹیم تیار ہو رہی ہے ؟ کب ایک مستند گروپ تیار ہو گا جو اس طبقے سے مخاطب ہو گا۔ شائد دینی طبقہ پہلے ہی اس معاملے میں سالوں کی تاخیر کا شکار ہو چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی اصلاح کیجئیے۔ ان میں خیر کو برقرار رکھنے کے لیے کاوش کیجیے۔ ان سے ملاقات کا اہتمام کیجئیے۔ سوشل میڈیا پر اصلاح کیجئیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میدان میں کچھ کیس الگ بھی ہیں جو ڈھٹائی سے چیلنج کرتے ہیں۔ جو جان بوجھ کر شرپسندی کرتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف شہرت کا حصول ہے۔ وہ دلیل کو نہیں مانتے۔ مستند علماء سے ملنا نہیں چاہتے۔ اصلاح ان کا مقصد نہیں۔ ان کو الگ کیجئیے۔ ان کی جہالت واضح کیجیئے۔ لیکن جب تک کوئی واضح اور ڈھٹائی سے مستند حوالوں کا انکار نہ کرے اس کو سمجھایا جا سکتا ہے۔ اصلاح کی جا سکتی ہے۔ بس یہی گزارش ہے۔
اب اس صورتحال کا حل کیا ہے؟ سب سے اہم باہمی نیٹ ورک، ملاقاتوں اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور جاننے کی ضرورت ہے۔ آپ اصلاح کے داعی ہیں تو ضرور کوشش بھی کریں گے کہ جس کی اصلاح درکار ہے اس سے ملاقات بھی ہو۔

ایسے نیٹ ورک بننے چاہیں اور ایسی ملاقاتوں کا اہتمام ہونا چاہیے۔ غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں اور باہمی رابطے سے انتشار نہیں بڑھتا۔ لاہور میں ایک چھوٹی سی کاوش Men With Vision کی ملاقاتیں ہیں۔ دینی طبقے کو بھی باہمی رابطے کے لئے کمیونٹی سینٹرز ۔ کلب طرز کے ادارے بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ آپ کی نسلوں کے لئے ضروری ہے اور اپنے طبقے کو انتشار سے بچانے کے لئے اہم ترین۔ کوئی بھی تنہائی کا شکار نہ ہو ۔ صرف اپنے ہی محدود حلقے میں نہ رہیں۔ ملاقاتیں کریں، ایک دوسرے کے موقف اور نقطہ نظر کو سمجھیں۔ اصلاح کریں، دلائل دیں۔ ہاں یہ بھی ہے کہ جو کوئی بلکل بھی ماننے کو تیار نہ ہو ۔ کسی تنہائی میں رہ کر اپنے مخصوص عقائد و نظریات پر ڈھٹائی کا شکار ہو اور مسلسل انتشار پھیلائے۔ کسی اصلاحی کاوش میں شریک نہ ہو اور مستند دلائل سے انکار کرے تو پھر اس کی مشترکہ مخالفت کریں۔
اسی طرح ان نوجوانوں کو احساس کرنا ہوگا کہ جس مشکل راستے کا انہوں نے انتخاب کیا ہے اس پر چلنے کے تقاضے کیا ہیں۔ انہیں مزید استقامت اور اپنا روشن کردار معاشرے کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ان نوجوانوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ شیوخ الحدیث، علمائے کرام اور مدراس میں علمی کام کرنیوالوں سے رہنمائی، نصیحت ، رابطے اور تعلیم کے سلسلے کو بڑھائیں۔ جہاں کہیں خطا ہو رہی ہے اسے تسلیم کریں۔ مسائل اور شرعی رہنمائی کے لیے ماہر اور پختہ علمائے کرام سے رابطہ کریں۔
مستند دینی علماء سے بھی گزارش صرف اتنی کہ کسی سے ایسی غلطی ہو جائے جس پر اس سے بات کرکے، اصلاح کی کوشش ابھی نہ ہوئی ہو تو فوری اسے فتنہ اور گمراہ قرار دینے میں کچھ انتظار کیجئیے۔ ہر ایک کو بہت بڑا فتنہ قرار دے کر دوری اختیار کرنا بھی ہمیشہ اچھی حکمت عملی نہیں ہوتی۔ اور یہ بھی نہیں ہر ایک کو کسی فتنے سے ہی جوڑ کر اپنی بات کا وزن بنایا جائے۔ اس دوران مزید مراحل بھی آنے چاہیے ۔ کچھ تحقیق، کچھ اصلاح کی کوشش اور کچھ مل بیٹھ کر غلط فہمیوں کا ازالہ کیاجائے اور جو ان سب کے باوجود ہی انکاری ہو تو پھر واقعی اسے فتنہ سمجھنا اور قرار دینا بھی چاہیے ۔ صرف موقف اور طریقہ کار الگ ہونے پر نہیں دلائل کے ساتھ اس ان کے فتنےکو باور کرایا جائے۔

دوسرا سوشل میڈیا مواد کی تیاری پر بات کرتے ہیں۔ دراصل ہمارے ہاں دینی طبقے کی جانب سے سوشل میڈیا کے لئے باقاعدہ مواد ہی انتہائی محدود سطح پر کیا جا رہا ہے۔ فوکس کرکے سوشل میڈیا کی ضرورت کے مطابق دراصل لمبی تقاریر اور دروس و پروگرامز سے ہی کلپس کاٹ کر سوشل میڈیا پر شئیر کر دئیے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ مواد انتہائی محدود ہی رہے گا جب تک ایک شارٹ کلپ میں پوری بات نہ ہو۔ کاش سوشل میڈیا کو میکنزم سمجھنے کی بھی کوشش کی جائے۔ جب ٹیکنالوجی کا میکنزم اور مواد بدل چکا تو آپ کب تک پرانے انداز سے کام چلاتے رہیں گے۔ حقیقت یہی ہے کہ ابھی تک سوشل میڈیا کے لئے باقاعدہ مواد تیار کرنیوالوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ لمبے دروس اور خطبات ہوتے ہیں جن کی ریچ محدود ہی رہ سکتی ہے۔ ایک ہی پلیٹ فارم پر آپ باقاعدہ تیار کیا گیا شارٹ کلپ اور کسی لمبی تقریر سے کاٹا گیا کلپ شئیر کریں ۔جس کی مکمل تقریر بھی شئیر ہو چکی ہو ان کی ریچ میں بڑا فرق ہو گا۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال بھی ضروری ہے ہے۔ سکالرز اپنے لیکچر پریزینٹیشن کے انداز میں پیش کریں۔ چھوٹے چھوٹے پیغامات کے لئے ویڈیو شارٹ کلپس بنائے جائیں جو کہ انتہائی مقبول ہوتے ہیں۔ آن لائن دروس، لائیو سٹریمنگ، سوشل میڈیا پر تشہیر کا خوب استعمال کیا جائے۔
تیسرا اہم پوائنٹ ہمارے معاشرتی و سماجی رویے ہیں ۔ آپ اسے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ایک ایسا معاشرہ جسے اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں ایک رویہ ہے کہ اگر کہیں درس قرآن یا عالم دین کی تقریر کی دعوت دی جائے دوسری جانب اسی کو ایک نئے انداز میں ”زندگی میں کامیابی کیسے ؟“۔ ”زندگی کو خوشگوار بنائیں “ ۔ ” غصے پر کیسے قابو پائیں “ ۔ اور ایسے ہی بہت سے موضوعات کہ جو معاشرے کے ہر فرد کی ضرورت ہیں ان کے تحت لیکچرز کا اہتمام کیا جائے تو بہت زیادہ لوگ متاثر اور شریک ہوتے ہیں جبکہ ان معاشرتی مسائل کا حل قرآن وحدیث کی روشنی میں پیش کیا جاتا ہے۔ یعنی عوامی دلچسپی کے موضوعات کو نمایاں کرنا اور حل قرآن و سنت کی روشنی میں دینا۔ یہ عقائد و نظریات میں تبدیلی نہیں۔ محض موضوعات کو دلچسپ اور عوامی بنانا۔
دینی طبقے کو اس چیلنج کا احساس کرنا ہے۔ یہ ایک نسل ہے جسے اصلاح کی ضرورت ہے۔محض تنقید، تابڑ توڑ حملے، گمراہی کے طعنے وغیرہ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتے۔ انہیں دین سے جوڑے رکھنا ہے تو ضرور لائحہ عمل بھی اپنانا ہو گا۔ کسی کی انفرادی بات، کسی غلطی کوتاہی پر بہت شدید ردعمل کی بجائے ایک طبقے کی اصلاح کا پہلو ملحوظ خاطر رہنا چاہیے۔ انہیں دور کرنے کی بجائے قریب کیجیئے۔ اگر آپ کسی غلطی کی اصلاح کی بجائے شدید تنقید کر دیں گے، گمراہ ہی قرار دے دیں گے تو پھر یا تو اسے دین سے متنفر کریں گے یا کم سے کم خود سے ضرور کر دیں گے۔ یہ کوئی مقابلہ تھوڑی ہے۔ یہ تو باہمی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے مراحل ہیں۔ ان کی اصلاح کی کاوشیں مستند علماء کرام ، سکالرز اور داعیان دین کو اس نسل کو سنبھالنے اور ان کی اصلاح کے لئے جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیے۔

 محمد عاصم حفیظ