سوال

ایک شخص کے تین کے بیٹے تھے اور چار بیٹیاں تھیں ۔ان میں سے ایک بیٹا اس کی زندگی میں فوت ہوگیا ۔اس فوت ہونے والے بیٹے کی اولاد موجود ہے ۔کیا اس طرح کے پوتے کو میراث ملے گی؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

وراثت ملنے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے، کہ وارث، موَرِّث کی وفات کے وقت  زندہ ہو۔جو رشتے دار موَرِّث کی زندگی میں فوت ہو جاتے ہیں،ان  کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔اس مرحوم کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ایک بیٹا زندگی میں فوت ہو گیا تو باقی دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔اگر کوئی اور رشتہ دار نہیں ہے، تو اس جائیداد کے آٹھ حصے کرلئے جائیں۔دو دو حصے  ہر بیٹے کو، اور ایک ایک حصہ  ہر بیٹی کو مل جائے گا۔ مذکورہ پوتے وارث نہیں بن سکتے۔کیونکہ ان کا باپ ، ان کے دادا کی زندگی میں فوت ہوگیا ہے۔ اور چونکہ دادا کی اولاد موجود ہے، تو اولاد کی موجودگی میں پوتے ، پوتیوں کا حصہ نہیں ہوتا۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الفرائض میں ایک عنوان قائم کیا ہے:

“باب میراث ابن الابن إذا لم یکن ابن”. [صحیح بخاری: ٦٧٣٥]

’پوتے کی وراثت اس وقت بنتی ہے جب بیٹے موجود نہ ہوں‘۔

اور پھر اس کے ساتھ زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کا فتویٰ بھی نقل کیا ہے،کہ پوتا اس وقت وارث بنتا ہے جب مرحوم کا کوئی بیٹا نہ ہو۔

ہاں اگر دادے نے پوتوں کے لیےکچھ وصیت کی ہے ،تو  یہ ان کا حق ہے، جو  انہیں ملے گا۔ اسی طرح ان بچوں کے چچے اور پھوپھیاں  حسنِ سلوک کرتے ہوئے، کچھ دینا چاہیں، تو دے  سکتے ہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ