سوال (1338)

“تلزم جماعۃ المسلمین و امامھم” سے مراد یہ ہے کہ اب ہم مختلف ممالک میں بٹ چکے ہیں تو اب کیا کرنا ہے اس پر اجماع ہو چکا ہے کہ “جماعة المسلمين و امامه‍م” سے مراد ہر اسلامی ملک اور اسکا حکمران ہے ، اور اس پر اجماع ہو چکا ہے ، اب پاکستان میں رہنے والے مسلمان شھباز شریف کی بیعت کریں گے اور ان کے گلے میں اس کی بیعت ہے اور امامت عظمی کے قائم مقام ہے اور وہی ان کا امام ہے ورنہ شھباز شریف کی سمع و اطاعت نہ کرکے اسے امام نہ مان کر اسکی بیعت سے نکلنے والے جاھلیت کی موت مریں گے ؟
مہربانی فرما کر اس کے متعلق علماء کرام شرعی رہنمائی فرمائیں ؟

جواب

جمہوری حکومتوں میں بھی امیر پر اجماع ہوتا ہے!!؟
یہ عجیب بات ہے ، کئی پارٹیوں میں سے ایک پارٹی آگے آ جاتی ہے وہ جیسے آتی ہے سب کو معلوم ہے ، باقی جتنی جماعتیں یا پارٹیاں ہوتی ہیں ان کے نمائندے اور کارکنان سب دوسری پارٹی کے مخالف ہوتے ہیں اگرچہ وہ (دوسری پارٹی) حکومت ہی کیوں نہ ہو ، اورا پوزیشن کس کا نام ہے ، جسے جمہوریت کی خوبصورتی کہا جاتا ہے..! اس لئے اجماع والی بات تو بالکل غلط ہے۔
ان صاحب کے نزدیک اگر یہ وقتی (پارٹی لیڈر ) حکمران، امامت کبری کے مقام پر فائز ہیں تو ان کی پارٹی کے سوا جتنی پارٹیاں ہیں بلکہ عوام میں سے جتنے لوگ دوسری جماعتوں سے منسلک ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی پارٹی حکومت میں آئے وہ سب کے سب واجب القتل ہوئے (سلف کے منہج کے مطابق ایک فتویٰ صادرکر دیں)
باقی سمع و اطاعت تو وہ مبدل یا مرتد کی نہیں ہوتی مسلمان کی ہوتی ہے اگرچہ غاصب یا متغلب ہی کیوں نہ ہو۔
بنیادی والیت تو ثابت ہو..!

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

اپوزیشن ان معنوں میں نہیں ہوتی۔ اپوزیشن کے لوگ بھی آئینی طور پر حکومتی احکامات کے پابند ہوتے ہیں ، اپوزیشن کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ حکومت کا احتساب کرے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

آئین کی پابند تو رہتی ہے لیکن کیا حاکم بھی مان لیتی ہے؟ جیسے اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے؟

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

بالکل۔ حاکم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپوزیشن میں سے بھی اپنے وزراء کا انتخاب کر سکتا ہے ، ہاں وہ مختلف چیز ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

مطلب پھر ان نظاموں میں ظلما سلف کا کلام منطبق نہیں کرنا چاہیے اور دن رات منہج سلف منہج سلف کی رٹ نہیں لگانی چاہیے ، بلکہ ان کو موجودہ سیاسی نظام سمجھ کر تامل کرنا چاہیے ، شیخ جو پارٹی آ گئی اس کو تو آئینی حق مل گیا انتخاب کرنے کا ، میں یہ پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ کیا دلی طور پر مخالف پارٹیاں اس حاکم کو حاکم وقت اور امام اعظم مان لیتی ہیں!؟

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

جی۔ موجودہ سیاسی نظام سمجھ کر تامل کرنا چاہیے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

کہ یہ کہا جائے کہ امت پاکستانیہ کا حاکم وقت پر اجماع ہو گیا ہے؟!

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

ہمارے قدیم خلفاء کو تمام لوگ دلی طور پر تسلیم کرتے تھے؟ آپ ہی کہہ رہے ہیں کہ حکومتی پارٹی کا انتخاب کوئی اور اتھارٹی کرتی ہے۔ اس لحاظ سے تو اسے اتفاق رائے ہی کہنا چاہیے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

لیکن وہ اظہار بھی نہیں کرتے تھے ، جہاں کرتے تھے پھر ان کا سلوک کیا ہوتا تھا؟ اگرچہ مخالفین موجود رہتے ہوں گے لیکن معاملہ موجودہ صورت حال سے تو قدرے مختلف ہے۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

ریاست کے حامی یہی تو کہتے ہیں کہ ہم اصل اتھارٹی کے ساتھ ہیں ، اظہار بھی کرتے تھے۔ البتہ صرف مسلح اظہار گردن زدنی سمجھا گیا تھا۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

کیا اپوزیشن چند اراکین اسمبلی کو خرید کر حکومت کا تخت نہیں الٹ سکتی؟

فضیلۃ الباحث محمود مغل حفظہ اللہ

اجماع کے دعوے کی ضرورت نہیں ہے ، جماعت المسلمین سے مراد مسلمانوں کا نظم ہے اور اس سے مراد ہمارا ریاستی نظم بھی ہو سکتا ہے جو اگرچہ مثالی نہیں مگر یہاں کے قانون کو لے کر چلنا ہماری شرعی ذمہ داری بھی ہے باقی اس سے کوئی شہباز شریف وغیرہ مراد نہیں بلکہ یہ نظم ہے جس کو ماننا ہے یہاں ایک فرد کچھ بھی نہیں بلکہ پورا نظام ہے جس نے اپنے انداز میں چلنا ہے اس نظام پر بحث ممکن ہے کیونکہ اس کی بنیادی طور پر ابتدا یورپین ہے نہ کہ اسلامی

فضیلۃ العالم محمد زبیر غازی حفظہ اللہ

پوچھا تو دو چیزوں کے متعلق گیا ہے ، و امامهم کی تشریح بھی کر دیجیے ، باقی اسلامی نظام میں تو اس ایک فرد کی حیثیت ہوتی ہے اسی کو راس الدولہ سمجھا جاتا ہے۔
اور وہی امامهم ہوتا ہے ، موجودہ نظام کے حوالے سے تو یہ بات کاغذی طور پر درست ہے کہ اس میں ایک فرد کی حیثیت نہیں ہوتی پورا نظام ہوتا ہے۔ لیکن اسے جماعت المسلمین کی شرح کہنا محل نظر ہے۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

پھر آپ کے پاس ملک کے قانون کو ماننے کی کیا توجیہ ہے ؟

فضیلۃ العالم محمد زبیر غازی حفظہ اللہ

یہ تو اگلی بات ہے ، لیکن آپ جماعت مسلمین کی شرح کہہ کر اسے شرعی جواز تو نہ بخشیں شیخ

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

میں نہیں بخشتا ، اب آپ اگلی بات کا جواب دیں؟

فضیلۃ العالم محمد زبیر غازی حفظہ اللہ

اب آپ اپنی آخری بات دیکھ لیں!

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

میں تو پہلے ہی اپنی آخری بات پر شرح صدر کر کے بات کر رہا ہوں ، آپ اپنا سینہ کشادہ کریں اور ہمیں سمجھائیں کہ ایک مسلمان کس وجہ سے ایک ملک کے قانون کی پابندی کرتا ہے؟

فضیلۃ العالم محمد زبیر غازی حفظہ اللہ

کئی وجوہات ہو سکتیں ہیں مثلاً غیر اسلامی تربیت ، جو توحید خالص سے خالی ہو

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

یہ تو اسباب ہیں جنہوں نے یہاں تک پہنچایا ہے میں قانون ماننے کی علت پوچھ رہا ہوں

فضیلۃ العالم محمد زبیر غازی حفظہ اللہ

اور جب انسان کی تربیت توحید اور عقیدہ الولاء والبراء پر نہ ہو تو طوعاً و کرہاً طاغوت کا معاون و مددگار بن جاتا ہے ، جب انگریز تھے تب بھی مسلمان قانون کو مانتے تھے ، تب بھی توجیہ تو تھی
وہ کیا تھی؟
اور جو نہیں مانتے تھے ان کا کیا کہنا تھا؟

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

کسی نے ان کو شرعی طور پر حاکم نہیں مانا سوائے لبرلز کے ہمارا ان سے تنازع ہی رہا ہم نے ان کو گویا حاکم تسلیم ہی نہیں کیا اور ہندو مسلمان دونوں ان سے آزادی کے ہی طلبگار رہے ویسے بھی وہ مسلط تھے اگر ہم ان سے ہاتھ روکے ہوئے تھے تو اس لیے کہ ہماری طاقت کا مسئلہ تھا، وہ ہمارا موضوع نہیں ہیں وہ ایسے ہی ہیں جیسے دار الحرب ہمارے گھر گھس آئے ہوں لیکن ہم طاقت اور نظم میں نہ ہوں جب وہ اس طور پر حاکم ہی نہیں تو ان کی شرعی توجیہ بھی نہیں ، مگر بات یہاں کی ہو رہی ہے ہم ان کو مسلمان نہ مانیں تو آپ انگریزوں پر قیاس کر سکتے ہیں لیکن اگر یہ مسلمان ہیں اور قانون اسلامی ہے تو اب اس اطاعت کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ ہم اپنے مسلمان حاکم کی معروف کاموں میں اطاعت کریں !

فضیلۃ العالم محمد زبیر غازی حفظہ اللہ

الٹ سکتی ہو تو الٹ دے۔ حکومتوں کے لیے یہ ظاہر کرنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت ان کے ساتھ ہے ، قدیم خلافتوں میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ جس کے پاس زیادہ قوت ہوتی تھی وہ خلافت حاصل کر لیتا تھا۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

شاید انگریزوں کی کتب آپ کے لئے متنازعہ ہوں ،جنہوں نے لکھا کہ مسلمانوں سے بڑھ کوئی خدمت گزار نہیں ملا ، اور ہنٹر نے لکھا عام گلی محلوں کے ملاؤں نے ہمارے حق میں فتوے دیے۔(ہمارے ہندوستانی مسلمان)
چلیں آپ جرنیل اھل حدیث مولانا محمد حسین بٹالوی کی کتاب الاقتصاد فی مسائل الجهاد، فارسی اور بعد میں خود ہی اردو میں ترجمہ کیا) پڑھ لیجئے۔جس میں انھوں نے ہندوستان کو عہد انگریز میں دارلسلام ثابت کیا۔اور انگریزوں کے خلاف اٹھنے کو بغاوت اور خروج قرار دیا اور کہیں کہا گیا کہ مولانا اسماعیل شہید اور سید احمد شہید رحمہ اللہ کا کھبی بھی انگریزوں کے خلاف لڑنے کا ارادہ نہیں تھا وہ تو فقط سکھوں کے خلاف ان کے ظلم و ستم کی وجہ سے کھڑے ہوئے۔
علی گڑھ یونیورسٹی،ندوة العلماء کے بانیان ،یہ سب امید ہے آپ کے نزدیک لبرل نہیں ہوں گے۔
اور بعد کے حریت رہنماؤں کی کتب کا مطالعہ بھی آپ کے لئے مفید رہے گا۔ (خصوصا شورش کی کتب دیکھئے)
تحریک مجاھدین کے خلاف کون کون پروپگنڈے میں شامل رہا اس پر بھی دور کی تاریخی کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔باقی گدی نشینوں اور قبر پرستوں کی کہانی .
اور اسی طرح دارالعلوم والوں کی خدمات سے صرف نظر کیا کیوں کہ اس پر بھی اعتراض ہو سکتا ہے۔
“مرقع ملتان” دیکھیے!

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ