سوال (3197)

حرام جانوروں کی کھالوں کا کیا حکم ہے؟ کیا دباغت کے بعد ان کو استعمال کیا جاسکتا ہے؟

جواب

یہ مسئلہ فقہ الاختلاف کا مسئلہ ہے۔ اگر اسلاف کی کتب دیکھیں تو ہمیں حرام جانوروں کی کھالوں کے حوالے سے علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے چار اقوال ملتے ہیں:
1- تمام جانوروں کی کھال دباغت سے پاک ہو جاتی ہے ماسوائے خنزیر کے۔ یہ قول احناف کی طرف منسوب ہے۔
2- تمام جانوروں کی کھال دباغت سے پاک ہو جاتی ہے ماسوائے خنزیر اور کتے کے۔ یہ قول شوافع کی طرف منسوب ہے۔ مولانا صفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی بلوغ المرام کی شرح میں لکھتے ہیں: “یہ حدیث ہر قسم اور ہر نوع کے حیوانات کے چمڑوں کو شامل ہے۔۔۔حدیث مذکور سے معلوم ہوتا ہے کہ دباغت (رنگائی) کے بعد ہر قسم کا چمڑا پاک ہو جاتا ہے، وہ چمڑا خواہ حلال جانور کا ہو یا حرام کا، جانور خواہ شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو یا خود اپنی طبعی موت مرا ہو۔ اس اصول عمومی کے باوجود بعض جانور ایسے ہیں جن کے چمڑے کو دباغت کے باوجود پاک قرار نہیں دیا گیا، مثلاً: خنزیر کا چمڑا، اسے نجس عین ہونے کی بنا پر پاک قرار نہیں دیا گیا اور انسان کا چمڑا، اسے بھی بوجہ اس کی کرامت و بزرگی اور شرف کے حرام ٹھہرایا گیا ہے تاکہ بےقدری سے اسے محفوظ رکھا جائے”۔
3- تمام جانوروں کی کھالوں کو دباغت سے پاک کیا جا سکتا ہے چاہے وہ خنزیر ہو یا کلب یعنی کتا۔ یہ قول اہل ظواھر کا ہے، اسے امام ابن حزم رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شرح المحلى میں ذکر کیا ہے۔
4- ابن رشد نے اس حوالے سے اپنی کتاب بداية المجتهد میں “ما تحله الذكاة” کی شرط لگائی ہے۔ لیکن یہ شرط بھی محل نظر ہے۔
وجہ اختلاف حدیث کے الفاظ “أيما إيهاب” ہے۔ اگر ان تینوں اقوال پر نصوص صحیحہ کی روشنی میں مناقشہ کیا جائے تو یہ تینوں ہی محل نظر ٹھہرتے ہیں۔ اگر اس سلسلے میں “دباغ” یا “جلود الحيوانات” والی کتب کا مطالعہ کیا جاہے تو بات مزید نکھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ چند ایک کتب کے نام جواب کے آخر میں مل جائیں گی۔ إن شاء الله۔
اب سوال وہی رہ جاتا ہے کہ حرام جانوروں کی کھال دباغت سے پاک ہو جاتی ہے یا نہیں ؟ اس کے لیے دو قواعد ذہن نشین کریں:
القاعدة الأولى: جلد الميتة تابع للحيوان:

جیسا حیوان ویسی ہی اس کی جلد، یعنی جو حکم حیوان کا ہو گا وہی حکم اس کی جلد کا۔ اس بناء پر ہم کہ سکتے ہیں کہ حرام جانوروں کی کھالیں دباغت سے پاک نہیں ہوتیں۔ اس کی تائید میں دو احادیث پیش خدمت ہیں:

ا: ما جاء عن أبي مليح عن أبيه: أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن جلود السباع أن تفترش. الترمذي ١٧٧١۔
ب: ما روى عن المقدام بن معدي كرب: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن لبس جلود السباع والركوب عليها. أبو داود ٤١٣١۔

القاعدة الثانية: الدبغ مطهر لجلد الحيوان الطاهر في الحياة:

یا پھر دوسرے الفاظ میں: كل حيوان جلده طاهر في الحياة، فإن الدباغ يطهره بعد الوفاة: یعنی صرف طاھر اپنے مخصوص معنی میں حیوان کی ہی جلد دباغت سے پاک ہو گی غیر طاھر کی نہیں۔ اس پر دلائل دباغت والی احادیث ہیں:

قال النبي صلى الله عليه وسلم: إذا دبغ الإهاب فقد طهر، وقال صلى الله عليه وسلم: أيما إيهاب دبغ فقد طهر، وقال صلى الله عليه وسلم: يطهرها الماء والقرض۔

یہ دونوں قاعدے فضيلة الشيخ وليد بن راشد السعيدان حفظه الله ورعاه نے “القواعد والضوابط في كتاب الطهارة” کے عنوان کے تحت ذکر کیے ہیں۔
مزید تفاصیل کے درج ذیل کتب دیکھیں:

١- جلد الحيوان وما يتعلق به من أحكام في الفقه الإسلامي لصلاح البدير.
٢- البرهان في أحكام جلد ميتة الحيوان لمحمود بن عوض السهلي.
٣- أحكام الحيوان في كتابي الطهارة والصلاة ابتسام القرني.
٤- أحكام الجلود في الفقه الإسلامي ياسين الخطيب.
٤- أحكام الجلود في الفقه الإسلامي فاطمة العريني.
٥- أحكام غير مأكول اللحم من الحيوان في الفقه الإسلامي.
٦- أحكام الحيوان غير المأكول صالح التوبجري.

والله تعالى أعلم والرد إليه أسلم.

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ