دینی تعلیم اور معاشرتی رجحان
پہلے یہ بات سمجھ لیں کہ یہ جو لاکھوں لوگ، آپ کو دینی مدارس میں نظر آتے ہیں، یہ معاشرے کا شاید ایک فیصد بھی نہیں ہیں۔اگر آپ اس بات کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو غور کریں کہ آپ کے ارد گرد دینی مدارس کتنے ہیں؟ اور اسکولز، کالجز یعنی دیگر تعلیمی ادارے کتنے ہیں؟ صبح سویرے سات آٹھ بجے سڑکوں پر نظر آنے والے طلبہ و طالبات کہاں جارہے ہوتے ہیں؟ بسیں، رکشے وغیرہ ٹرانسپورٹ کن طلبہ کو، کن تعلیمی اداروں کی طرف لے کر جارہی ہوتی ہیں؟!ذرا سا غور کرنے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد دیگر کے مقابلے میں شاید ایک فیصد بھی نہیں ہے۔کسی علاقے یا شہر میں چلے جائیں، شاید ناممکن ہے کہ وہاں اسکول اور کالج وغیرہ نہ ہو. لیکن آپ کو بے شمار ایسے علاقے اور شہر مل جائیں گے، جن میں دینی تعلیم کے لیے باقاعدہ کوئی دینی ادارہ موجود نہیں ہے۔اس سب سے نتیجہ یہ نکلتا ہے، کہ دینی تعلیم کے حوالے سے ہمارا معاشرہ بے حسی اور لاپروائی کا شکار ہے۔
دینی تعلیم سے بے رغبتی کی وجوہات
سوال یہ ہے کہ دینی تعلیم کے حوالے سے اس بے حسی اور لاپروائی کی وجہ کیا ہے؟اس کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں، میری نظر میں تین اہم وجوہات ہیں:
اول: ہم سب کی نظروں میں دین غیر اہم ہوگیا ہے، تو دینی تعلیم کی اہمیت کیونکر باقی رہے گی؟
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اصل چیز ہے ہی دین ۔ مقصدِ زندگی تو دینی تعلیمات ہیں، اصل علم تو معرفتِ الہی ہے۔ اصل تعلیم وہ ہے، جو انسان کو خالق و مالک کی مرضی و منشا سے روشناس کرواتی ہے۔ باقی تو دنیاوی ضروریات ہیں۔اسی بات کو علما نے اس طرح لکھا ہے کہ:
“العلم ما قال الله وقال الرسول، وما سوى ذلك فن من فنون الدنيا”
علم: اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کا نام ہے، بقیہ چیزیں دنیاوی مہارتیں اور فنون ہیں۔
بلکہ ابن قیم رحمہ اللہ نے تو اس بات کو اس طرح لکھا ہے کہ لوگوں کو دین کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے، جبکہ دیگر چیزوں کی ضرورت کبھی کبھار ہوتی ہے۔ بطور مثال لکھتے ہیں کہ طب/ میڈیکل بہت ضروری چیز سمجھی جاتی ہے، لیکن دینی علم اس سے بھی ضروری ہے، کیونکہ طب کی ضرورت انسان کو بیماری کی حالت میں پڑتی ہے، جبکہ دینی علم کی ضرورت، انسان کو ہر حال میں رہتی ہے۔مزید لکھتے ہیں کہ کھانے پینے، اور آکسیجن سے بھی زیادہ دین کی ضرورت ہے، کیونکہ ان چیزوں کے نہ ہونے سے انسان کی جسمانی موت ہوتی ہے، جبکہ دین اور اس کا علم نہ ہو، تو فرد اور معاشرہ روحانی موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔ دنیاوی فنون اور ضروریات نہ ہوں، تو انسان کی صرف دنیا خراب ہوتی ہے، جبکہ روحانی اور دینی مسائل کی وجہ سے انسان دنیا و آخرت دونوں تباہ کر بیٹھتا ہے۔
یہ ابن قیم اور اہلِ دین کا سوچنے کا انداز ہے۔ جبکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ارکانِ اسلام، ارکانِ ایمان کا علم ہو نہ ہو، طہارت اور نماز کا طریقہ معلوم ہو نہ ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہاں البتہ دنیا کمانے کے لیے سکلز، مہارتیں اور نت نئے ذرائع پر دسترس ضروری ہے۔
لوگ بینکنگ کا ایک نظام ہونا اپنی ضرورت سمجھتے ہیں، لیکن اسے شریعت کے مطابق ہونا، ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ہماری ساری ڈگریاں اور تعلیمیں اس بات پر زور دیتی ہیں کہ کوئی معاشی سسٹم ہونا چاہیے، لیکن اس پر ہمیں کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ دین اور اسلامی تعلیمات کے مطابق کس طرح ہوسکتا ہے؟ زندگی کے تمام شعبوں میں ہمیں ایک دنیاوی سسٹم چاہیے، بھلا وہ اللہ اور اس کے رسول اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ واضح جنگ اور بغاوت پر قائم ہو۔
لہذا جب دین کی اہمیت ہی نہیں ہوگی. تو دینی تعلیمات میں دلچسپی کا کیا مطلب؟ اور دینی اداروں کی آبادکاری کا کیا مقصد؟
دوم: دینی تعلیم سے دوری کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم، معاشرتی مسائل سے کٹا ہوا ہے۔ معاشرے میں مسائل کچھ اور ہیں، اور ہمارا پڑھنا پڑھانا کچھ اور ہے۔ گویا ہم نظریات اور تھیوری پر توجہ دیتے ہیں، جبکہ پریکٹیکل اور عملی چیزوں سے کوسوں دور ہیں۔اس وجہ سے خود پڑھنے، پڑھانے اور پڑھوانے والے ہر تین قسم کے لوگ، دینی تعلیم سے دور اور متنفر ہورہے ہیں۔
ہونا یہ چاہیے کہ دینی مدارس کے نصاب میں جن چیزوں کا ہونا لازمی اور ضروری ہے، جیسا کہ قرآن و حدیث، تفسیر، فقہ، گرائمر، تقابل ادیان ومسالک، تفہیم عصر حاضر، تحریر و تقریر، ادب و انشاء وغیرہ، ان چیزوں کو اس طرح پڑھایا جائے، کہ طالبعلم کو پڑھتے ہوئے، ساتھ ساتھ سمجھ بھی آرہی ہو، کہ ان چیزوں کی معاشرے میں اب کیا ضرورت ہے؟
سوسال پہلے مطبوع کتاب بھی شاید میسر نہیں تھی، اب ہر چیز ڈیجیٹل فارمیٹ میں بھی دستیاب ہے، تو پڑھنے پڑھانے کے انداز میں تبدیلی تو ضروری ہے۔ ایک صدی قبل انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا جیسے فتنے نہیں تھے، لیکن اب ہیں، تو اس کے لیے طالبعلم کو ہم کیا پڑھا رہے ہیں؟ سو سال پہلے بھي ہمارا ہدف اگر ایک اچھا امام اور خطیب پیدا کرنا ہی تھا، اور اب بھی ہم منبر و محراب کو سامنے رکھ کر ہی نصاب ِتعلیم اور طرزِ تدریس مرتب کر رہے ہیں، تو اس کا مطلب ہے، کہ ہم نے خود فیصلہ کرلیا ہے ،کہ ہم نے اس معاشرے میں اترنا نہیں، اور اس کے مسائل کے ساتھ ہمارا کوئی واسطہ نہیں۔ آپ نے نصاب کے اندر اگر قادیانیت کی تردید رکھی ہوئی ہے،، تو یہ تو ایک صدی پہلے کا مسئلہ ہے، جبکہ اب تو جاوید غامدی، مرزا جہلمی جیسے کئی فتنے میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے جنم لے چکے ہیں۔ اس کے لیے ایک دینی طالبعلم کو کیا سکھایا جارہا ہے؟
پہلے لوگ امام صاحب سے آکر طلاق کا مسئلہ، اور پاکی ناپاکی کے مسائل پوچھتے تھے، اب انٹرنیٹ کے ذریعے ان کے ذہنوں میں جو زہر انڈیلا گيا ہے، وہ ان خدشات کو آکر اگر امام صاحب کو بیان کریں، تو کیا وہ اس کا خاطر خواہ جواب دینے کو تیار ہیں؟
پہلے تو لوگوں کی تربیت، مساجد/ مدارس اور معتبر مجلات و جرائد کے ذریعے ہوتی تھی، اب تو ہر کوئی میڈیا اور سوشل میڈیا پر معلم و ہادی بن کر بیٹھا ہوا ہے۔ پہلے تو کسی گمراہ کے خلاف فتوی صادر ہوجاتا تھا، تو وہ منہ چھپاتا پھرتا تھا، اب وہ اسی فتوی اور رد کو اپنے لیے ’بوسٹر‘ اور ’سرٹیفکیٹ‘ سمجھ کر فخر کرتا پھرتا ہے۔ اس ماحول میں دین کے داعی اور دینی معلم اور طالبعلم کے لیے الگ سے تربیت اور مشق کی ضرورت ہے، تو کیا ہم دینی تعلیم میں اس سب کا بندوبست کر رہے ہیں؟
حالات کا تقاضا تھا کہ ہم روایتی دینی ضرورتوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ، نئے کھلنے والے محاذوں کے لیے بھی افراد تیار کرتے۔جس پر ابھي تک دینی طبقہ کماحقہ توجہ نہیں دے رہا۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے، محض چند ایک افراد جو سالانہ دینی مدارس سے فارغ ہوتے ہیں، وہ بھی ملازمت ڈھونڈنے میں ناکام ہو کر، دنیاوی فیلڈز میں جانا شروع ہوجاتے ہیں۔حالانکہ اس وقت دین اور اہل دین کو جس قدر افراد کی ضرورت ہے، شاید کبھی نہ تھی۔
سوم:تیسری اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں دینی کام اور اس کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے عجیب و غریب مغالطے پائے جاتے ہیں۔ جس وجہ سے لوگوں کو اس میں آخر ت کے ثواب کی امید تو ہے، لیکن دنیاوی حوالے سے وہ بالکل مایوس نظر آتے ہیں۔
گویا لوگ سمجھتے ہیں کہ دینی مدرسے میں داخلہ لینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا معاشی اور معاشرتی طور پر کوئی مستقبل نہیں ہے۔ امامت ہو، خطابت ہو، کوئی بھی دینی ذمہ داری ہو، آپ چوبیس گھنٹے بھی اس پر صرف کریں، آپ کو عالم دین اور معزز سمجھ کر زیادہ تو دور کی بات ہے، ایک عام مزدور و ملازم جتنی مزدوری بھی نہیں ملنے والی۔الٹا یہ کہنے والے ناصحین مل جائیں گے، کہ مولوی صاحب، قاری صاحب! کوئی کام بھی کرلیا کریں۔!!گویا دین کا کام کوئی کام ہی نہیں ہے۔
یہ اتنا بڑا المیہ ہے کہ مذہبی اور غیر مذہبی ہر قسم کے لوگ اس میں عجیب و غریب احمقانہ اور غافلانہ سوچ کے مالک ہیں۔علماء اور اہلِ دین کے ساتھ یہ رویہ تاریخ میں کبھی نہیں رہا۔علماء، مصنفین، محدثین، فقہاء، ائمہ کی اسلامی معاشرے میں کیا قدر ومنزلت اور عزت و تکریم تھی، اس پر الگ سے میں کئی بار لکھ چکا ہوں، مزید اس پر ایک مستقل کتاب مرتب کی جاسکتی ہے۔مختصر یہ کہ اسلامی سلطنت میں عموما اہل دین اور علماء ایک معزز اور خوشحال طبقہ سمجھا جاتا تھا۔اُن کے ہاں دینی کام کی اجرت کے جواز یا عدم جواز کی بحثیں تو موجود تھیں، لیکن وہ علماء کو عزت و تکریم کے عنوان سے ہی اتنا دیتے تھے، کہ جتنا کسی کو بطور تنخواہ بھی نہیں دیا جاتا تھا۔اُن کے ہاں ’جزاک اللہ خیرا‘ کا مطلب یہ ہوتا تھا، کہ یہ ہمارا حقیر نذرانہ اور ادنی خدمت ہے، جو آپ کی دینی خدمت کا معاوضہ اور اجرت قطعا نہیں ہوسکتی، لہذا حقیقی جزا اور معاوضہ آپ کو اللہ نے ہی دینا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں ’اللہ ہی جزا دینے والا ہے‘ کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں پر دینا حرام اور ممنوع ہے۔ اور اگر کوئی دے گا بھی، تو اس انداز سے کہ معاذ اللہ، آپ اہلیت تو نہیں رکھتے تھے، لیکن پھر بھی چند ٹکے ہماری طرف سے وصول فرمائیں۔
ائمہ مساجد، اساتذہ مدارس، اور محققین و مصنفین اور رجالِ دین کے ساتھ ہمارا یہ رویہ، معاشرے سے دین کی قدر ومنزلت کے فقدان، اور لوگوں کے دین سے دوری کا بہت بڑا ذریعہ بن رہا ہے۔ایک امام مسجد، مدرسے کا استاد یا عالم دین کسی بھی جگہ ڈیوٹی دیتے ہوئے، سخت سے سخت حالات سے گزر رہا ہوتا ہے، لیکن تنخواہ اور سہولیات کے وقت، اسے ادنی ملازم و مزدور جتنی اہمیت بھی نہیں دی جاتی۔زکاۃ و صدقات کے مستحق تو وہ فقراء و مساکین بھی ہیں، جو کچھ بھی نہیں کرتے، لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ علماء کو زکاۃ و صدقات بطور تنخواہ دیتے ہوئے بھی، بخل اور کنجوسی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
بچہ پیدا ہونا ہو، ڈاکٹر اپنی فیس کا مطالبہ پورے طمطراق سے کرسکتا ہے، لیکن امام صاحب کان میں اذان دینے اور گھٹی دینے کے بعد کوئی مطالبہ نہیں کرسکتے،خیرات سے جو دینا ہے، دے دیں۔نکاح ہوا، نکاح نامہ نکلوانے کےلیے قانونی طور پر فیس دینا ضروری ہے، لیکن امام صاحب کی خدمت آپ کی اپنی رضامندی پر منحصر ہے۔لیبارٹری میں جاکر ٹیسٹ کروایا ہے، رزلٹ مثبت آیا، منفی آیا، ان کی فیس پکی ہے،جبکہ مفتی صاحب سے فتوی پوچھا: مرضی کے مطابق نہ ہوا، تو دوبارہ رابطہ ہی نہیں کرنا، اور اگر مرضی کے مطابق جواب آگیا، تو پھر بھی فتوی کی فیس لینا مفتی صاحب پر حرام ہے۔بیگم کو طلاق دی، کوٹ کچہریوں، یونین کونسلوں میں دھکے بھی کھائیں گے، اور فیسیں بھي دیں گے، لیکن مولوی صاحب کا فتوی یہاں بھی مفت میں چاہیے..!!
لکھنے کو بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔لیکن مختصر بات یہ ہے کہ جب تک علماء کے معاشی تحفظ کا بندوبست نہیں کیا جائے گا، لوگ آہستہ آہستہ دین سے دور ہوتے جائیں گے۔
دین کی ساری ذمہ داری مولوی صاحب کی ہے؟ معاشرے کی کوئی ذمہ داری نہیں؟ ہم تو اپنی زکاتیں، صدقات بھی صحیح طریقے اور سیدھے منہ دینے کو تیار نہیں۔ لہذا اب دینی طبقے میں بھی جو چرب زبان، اور ڈھیٹ قسم کے ہیں، وہ بار بار رابطےکرکے، چکر مار مار کر، کچھ نہ کچھ نکلوا لیتے ہیں، ورنہ ایک عام سیدھے سادھے عالم دین کے بس کی بات نہیں، کہ کوئی اسے اپنا صدقہ و خیرات بھی دینے کو تیار ہو۔ گویا مال میں اللہ کا حق زکاۃ بھی ادا کرنی ہے، تو ذلیل و رسوا کرکے، اور من و اذی کے ساتھ. واللہ المستعان۔
میں سمجھتا ہوں کہ علماء کو جھوٹی عزت و تکریم کی ضرورت نہیں، ان کی دینی ذمہ داریوں کو حسب لیاقت و اہلیت دنیاوی کاموں کے ساتھ جوڑ کر، اس کے مطابق ان کے مشاہرے اور وظیفے مقرر کیے جائیں، سہولیات کا بندوبست کیا جائے۔ تاکہ دینی فیلڈ میں آتے ہوئے لوگ، اپنے معاشی استحصال سے پریشان نہ ہوں۔
ایک وقت تو وہ تھا کہ خلیفہ وقت بھی خواہش کرتا تھا کہ کاش میں امام مالک کی طرح مسند حدیث کا وارث بن جاؤں۔ اور آج یہ حال ہے کہ کوئی مہتمم اور مدیر، ناظم اور متولی پسند نہیں کرتا، کہ اس کا بیٹا امام مسجد، مدرسے کا استاد یا عالم دین بنے، کیونکہ اسے خود اندازہ ہے کہ ان کی معاشرے میں کوئی عزت و توقیر نہیں، اور کوئی معاشی تحفظ نہیں ہے۔
مسائل کا حل اور کچھ تجاویز
دینی مدارس اور دینی تعلیم کی طرف رجحان نہ ہونے کی تین بنیادی وجوہات میں نے ذکر کی ہیں۔گویا اگر ہم ان تین بنیادی نکات پر توجہ دیں، تو مسائل حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔یعنی لوگوں کو دین کی اہمیت سمجھائی جائے، اور اس کے لیے جتنے علمی، اخلاقی اور نفسیاتی طریقے ہوسکتے ہیں، انہیں بروئے کار لایا جائے۔ تاکہ غفلت و سستی میں پڑے لوگوں کے دلوں پر کم ازکم دستک ضرور ہو۔دینی نظامُ و طرزِ تعلیم میں وہ ضروری اور مناسب اصلاحات کرلی جائیں، جن سے دین صرف مولوی کا مسئلہ، اور مدارس کی حد تک پڑھنے پڑھانے کی چيز نہ ہو، بلکہ طالبعلم دورانِ تعلیم خود کو ایک جیتے جاگتے معاشرے کے درمیان محسوس کرے، اور بطور ایک عالم دین اور دینی اسکالر اپنی ذمہ داریاں سمجھ رہا ہو۔اور جونہی وہ میدان عمل میں قدم رکھے، تو اسے اپنا معاش اور مستقبل تاریک نظر نہ آتا ہو،بلکہ وہ خود کو ایک ایسے نظام کا حصہ سمجھتا ہو، جو آخرت کے اجر و ثواب کی امید تو رکھتا ہی ہے، لیکن اس ’دار العمل‘ میں بھی اس کے پاس ایک مکمل قابل عمل زندگی کا لائحہ موجود ہے۔
اس کے لیے سرسری تجاویز کچھ اس طرح ہیں:
ہم اس بات پر غور کریں کہ لوگ اس وقت زندگی کیسے گزار رہے ہیں؟انسان کا یومیہ/ ہفتہ وار/ ماہانہ/ سالانہ معاشرتی پہیہ کیسے گھوم رہا ہے؟لباس، غذا، صحت، تعلیم اور سیر و تفریح کے لیے لوگ بہت سارے چینلز اور پلیٹ فارمز استعمال کر رہے ہیں۔ ہم بحیثیت ایک دین پسند، کہاں کہاں سے انہیں اپنی طرف متوجہ کرسکتے ہیں۔اگر ایک انسان چوبیس میں سے بارہ پندرہ گھنٹے اسکرین کے سامنے گزار رہا ہے، تو ہم اس اسکرین میں کہاں کہاں اس کے سامنے آسکتے ہیں، اور دین کس انداز سے اس تک پہنچا سکتے ہیں۔پیزا اور شوگر کی دوائی اس کے گھر آرہی ہے، لباس اور جوتے جیسی ضروریات اس کے گھر آرہی ہیں، سودی کاروبار اور بیمہ پالیسی کے دعوت نامے اسے موبائل میں وصول ہوجاتے ہیں، تو پھر دینی رہنمائی کے لیے یہ ذرائع کیوں استعمال نہیں ہوسکتے؟اس انداز سے سوچنے سے روایتی دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ، ایک نیا اور بہت بڑا مکمل نظام ہمارے سامنے آئے گا، جس سے دین بھی لوگوں تک پہنچے گا، اور یہ کام سر انجام دینے والے افراد کے روزگار کا بندوبست بھی ہوگا.
فیس بک، واٹس ایپ، یوٹیوب، ٹک ٹاک، جیسی چیزیں اگر ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں، تو ہم اہل دین کو بھی اسی سطح پر ریسرچ اور ٹيم ورک کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ٹیلی نار، وارد، جاز، زونگ جیسی کمپنیاں اگر ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر لوگوں کو سہولیات دے کر پیسہ کما رہی ہیں، تو ہمیں بھی اپنی پیشکش اور مارکیٹنگ پر محنت کرکے، اس انداز سے مارکیٹ میں آنا ہوگا۔
موبائل صارف اگر ایک شیطانی کام کرے، تو اگلی دفعہ اس کے سامنے دس اور کھل جاتے ہیں، لیکن اگر وہ ایک اچھا کام کرے، تو اس کے سامنے مزید اچھے نوٹیفکیشنز کیوں نہیں آتے؟سودی نظام میں اتارنے کے لیے تو بار بار کالز اور ایڈز آتی ہیں، اس سے بچانے کے لیے بار بار رہنمائی کیوں نہیں آتی؟
ہمارے ہاں ایک ہی شخص کو ہر فن مولا سمجھ کر، اس پر ہی سارا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے، اس پر غور کیا جائے، اور امام مسجد کی ڈیوٹی بھي کم ازکم تین افراد کی ہو، خطیب بھی کم از کم دو ہوں، اس کے علاوہ مسجد کی خدمت کرنے والے دو تین افراد ہوں۔ اسی طرح مدارس میں اساتذہ میں بھی سینئر جونیئر کی تقسیم ہو، مفتیانِ کرام کے ساتھ بھی ریسرچرز اور باحثین کی ایک ٹیم دی جائے۔ تاکہ ایک تو سینئر کی معاونت کرنے والے لوگ موجود ہوں، دوسرا اس کا علم اور تجربہ بھی ان میں منتقل ہورہا ہو۔ تاکہ “یحمل هذا العلم من كل خلف عدوله” کا ایک عملی نمونہ اور نظام موجود ہو۔
دینی مدارس اور اسلامک سنٹرز کو باقاعدہ سپورٹ کرنے والے اصحاب الخیر، ان کی فوری مالی مدد بھی کریں، لیکن ساتھ ساتھ ہر مسجد، مدرسہ اور اسلامک سنٹر کے ساتھ ایک بہترین کاروبار بھی وقف کی صورت میں منسلک ہو۔ تاکہ دینی کام کرنے والے ساری عمر مانگنے کی بجائے، مطمئن ہوں کہ اگر ہم سب کچھ چھوڑ کر دین کے لیے فکر مند ہیں، تو ہماری دنیا کی فکر کرنے والا بھی کوئی ہے۔ اور زکاۃ و خیرات، اور مالی تعاون کرتے ہوئے، یہ ذہن میں نہ رکھا جائے کہ بس دھکا اسٹارٹ کام چلتا رہے، بلکہ کوشش کی جائے کہ اس طرح کا معیاری نظام بنایا جائے، جس طرح کہ ہم اپنے گھروں، اور کاروباری سنٹرز کے لیے بناتے ہیں. جس میں عمارتیں بھی اچھی ہوں، اور ان کو آباد کرنے والوں کی ضروریات کا بھی بطریقِ احسن خیال رکھا جائے۔
مذہبی طبقہ اجتماعی اور انفرادی ہر سطح پر کوشش کرے کہ دین اور اہل دین کی قدر ومنزلت اور تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر تجاویز اور بلز پیش کیے جائیں، اور اس حوالے سے اتفاق رائے سے قرار دادیں منظور کروائی جائیں۔ دینی تعلیمی ڈگریوں کو حکومتی سطح پر منظور کروایا جائے۔ تاکہ ایک دین کے طالبعلم کو، ڈگری کے حصول کے لیے ڈبل ڈبل محنت، وقت اور سرمایہ صرف نہ کرنا پڑے۔
دنیاداروں نے ہماری نئی نسل کو کیچ کرنے کے لیے اس قدر وسائل و ذرائع متعارف کروادیے ہیں، کہ ہماری نوجوان نسل مختلف سکلز سیکھ کر، دنیاداروں اور شیطانی پارٹی کی خدمت کر رہی ہے۔ کوئی فری لانسنگ کے نام پر، کوئی یوٹیوب سے کمانے کے چکر میں، کوئی مشہور ہونے کے لیے. کوئی پوائنٹس بڑھانے کے دھوکے میں۔دین کی فیلڈ پر تھوڑی توجہ کرکے، ہم شریعت اور اخلاقیات کا پابند رہ کر، بہت سارے نئے پلیٹ فارمز اور مشغلے اپنی نوجوان نسل کو دے سکتے ہیں۔جن حلال کاموں اور مشغلوں سے وہ سب فوائد سمیٹ سکتے ہیں، جو انہیں موجودہ ناجائز وسائل و ذرائع سے حاصل کرنے پڑ رہے ہیں۔نوجوان نسل کی حوصلہ افزائی کریں، انہیں تھپکی دیں، ریٹنگ دیں، مناسب اجرت دیں، اور ان سے دینی پراجیکٹس میں کام لیں۔
آخری گزارش
نظام بدلنے کا انتظار کیے بغیر، خود آگے بڑھ کر، اس کی بہتری میں حصہ ڈالیں، آئیں خود مشکلات جھیلیں، لیکن اپنے لیے نہ سہی، اپنی نئی نسل کے لیے صدقہ جاریہ بن جائیں۔ حالات اس طرح کے ہیں کہ بہت سارے لوگ دینی مدارس اور دینی تعلیم کی طرف نہیں آنا چاہتے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مثبت اور تخلیقی ذہن رکھنے والوں کو اس سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ مسائل بیان کیے جاتے ہیں، تاکہ ہم ان کا حل کرسکیں، اس لیے نہیں کہ کمزور دل، دین اور دینی تعلیم سے متنفر ہوجائیں۔ہم بلاشبہ ایک آئیڈیل نظام اور بہترین لائحہ عمل کے خواہاں اور منتظر ہیں، اور اس کے لیے آواز اٹھاتے ، اور حصہ بقدر جثہ ڈالتے رہیں گے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم دنیاوی سہولیات اور آسائشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے دین کو خود چھوڑیں گے، یا کسی کو ترغیب دلائیں گے۔ وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین
حافظ خضر حیات، مدیر’لجنۃ العلماء‘