سوال
سخت گرمی کے ایام میں کیا مرد اپنے بالوں کو، سکون حاصل کرنے کے لیے پونی ڈال سکتا ہے؟ اگر نہیں تو صرف گھر میں رہتے ہوئے اس کی اجازت ہے کہ نہیں؟رہنمائی فرما دیں۔
جواب
الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
شریعت ِاسلامیہ میں مردوں کا عورتوں سے اور عورتوں کا مردوں سے مشابہت کرنا حرام ہے ،بلکہ اس کی سخت وعید آئی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں:
«لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ»(صحیح البخاري:۵۸۸۵)
رسول ﷺنے لعنت فرمائی ہے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت کرتی ہیں۔
سائل نے بالوں کو سنوارنے کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا ہے ، تو اس بارے میں چند ایک باتیں ملحوظ رکھنی چاہییں ۔
- بالوں کو رکھنا شرعی مسئلہ نہیں بلکہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ انسان بال رکھے گا تو اسے ثواب ملے گا ،اگر نہ رکھے تو اسے ثواب نہیں ملے گا ،بالفاظ ِدیگر یہ سنت العادۃ ہے ، سنت العبادۃ نہیں ہے۔
- البتہ اگر کوئی انسان بال رکھتا ہے تو اس کے متعلق رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان بالوں کی تکریم کرے۔ تکریم سے مراد یہ ہے کہ ان میں کنگھی کرے ،تیل لگائے ،سنوارے ، پراگندگی سے بچائے اور بکھرنے سے محفوظ رکھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
-
«مَنْ كَانَ لَهُ شَعْرٌ فَلْيُكْرِمْهُ»(سنن أبی داؤد :4163)
” جس نے بال رکھے ہوئے ہیں وہ بالوں کی تکریم کرے “
رسول اللہ ﷺ کے بال کانوں کی لو تک ہوا کرتے ، تھے ، اگر زیادہ بھی ہو تے تو وہ کندھوں تک پہنچ جاتے۔
اس کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے:
«كَانَ شَعْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوْقَ الْوَفْرَةِ، وَدُونَ الْجُمَّةِ»(سنن أبی داود:4187)
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال وفرۃ (سر کے بال جب کانوں کی لو تک آئیں)سے زائد،اور جمۃ(جب کندھوں تک پہنچیں)سےکم تھے۔“
سیدنا انس بن مالک بیان کرتے ہیں :
«كَانَ شَعْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَنْصَافِ أُذُنَيْهِ»(سنن أبی داود:4186)
”رسول اللہ ﷺ کے بال آپ کے کانوں کے درمیان تک آتے تھے۔“
حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
«قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَكَّةَ وَلَهُ أَرْبَعُ غَدَائِرَ» تَعْنِي عَقَائِصَ(سنن أبي داود:۴۱۹۱، صححه الألباني)
”نبیﷺمکہ تشریف لائے تو ان کے بالوں کی چار لٹیں تھیں۔“
آپ ﷺ کے بال جب لمبے ہوجاتے تھے تو آپ ان بالوں کو سمیٹنے کے لیے تلبید(گوند وغیرہ لگانا) كرکے جما دیتے ،جس طرح ہمارے ہاں مہندی لگا کر بالوں کو جما لیا جاتا ہےتاکہ بال پراگندہ نہ ہوں بلکہ جمے رہیں،زیادہ بال بڑھ جاتے تو وہ مینڈھیوں کی شکل اختیار کر لیتے یعنی آپ مینڈھیاں شوق سے نہیں بناتے تھے ،بلکہ ددران سفر بالوں کو سنبھالنے میں دقت پیش آجاتی یا بال بڑھ جاتے تو خود بخود ہی مینڈھیاں بن جاتی تھیں۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ: ایسا سفر کی حالت میں ہوا تھا جبکہ بالوں کی دیکھ بھال کیے اور ان کو درست کیے زیادہ وقت گزر گیا تھا۔(فتح الباری:360/10)
امام ابنِ قیم فرماتے ہیں :
وَكَانَ شَعَرُهُ فَوْقَ الْجُمَّةِ وَدُونَ الْوَفْرَةِ، وَكَانَتْ جُمَّتُهُ تَضْرِبُ شَحْمَةَ أُذُنَيْهِ، وَإِذَا طَالَ جَعَلَهُ غَدَائِرَ أَرْبَعًا، قَالَتْ أم هانئ(زاد المعاد:۱۷۰/۱)
رسول اللہ ﷺ کے بال جب کندھوں تک ہوتے تو آپ اس کی چار لٹیں بنالیتےتھے ، جیسا کہ امِ ہانی رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے۔ “
- بالوں کو سنبھالنے کے حوالے سے ہمیں یہ واضح ہدایات ملتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺبالوں کو سنوارتے ، وقتا فوقتا کنگھی کرتے ،تیل لگاتے ،اور بالوں کو جما لیتے تھے اور پگڑی استعمال کرتےتھے، اگر بال اتنے لمبے ہوں جتنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے تو کنگھی کرکے اور پگڑی وغیرہ پہن کر سنبھالے جا سکتے ہیں۔
- رہا یہ پونی وغیرہ کا مسئلہ تویہ انتہائی محلِ نظر ہے ،ہمارے ہاں اوباش ،آوارہ مزاج،بازاری لوگ پونی استعمال اس لیے کرتے ہیں کہ عورتوں سے مشابہت ہو جائے ، بالوں کو سنبھالنا تو خوامخواہ کا بہانہ ہے،ایسے ہی کبھی کانوں میں بالیاں ڈال لیتے ہیں، کبھی بازوں میں کڑے وغیرہ ڈال لیتے ہیں ۔نوجوانوں کو چاہیے کہ اپنی وضع قطع شریعت کے مطابق رکھیں ،انگریزوں ،کافروں اور غیر مسلموں کی مشابہت سے بچیں ۔ \
-
واللہ اعلم بالصواب
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور حافظ إسحاق زاہد حفظہ اللہ