کیف ندرس علم تخریج الحدیث
اس کتاب کا مکمل نام اس طرح ہے : ’كيف ندرس علم تخريج الحديث ،منهج مقترح لتطوير دراسته و توظيف برمجة الحاسب الآلي في الأحاديث النبوية لتحقيق الهدف من التخريج‘ ، یہ کتاب مصنف نے جامعہ اردن میں تدریس کے دوران تالیف کی تھی، ساتھ جامعہ کے ایک اور پروفیسر بھی شریک ہیں۔
دعوی یہاں بھی پرانا ہی ہے ، کہ موضوع سے متعلق جتنی کتابیں تصنیف کی گئی ہیں ، سب میں رسمی اور تقلیدی باتیں زیادہ ہیں ، جبکہ عملی ، تطبیقی اور طالب علم میں اس فن کی فقاہت و مہارت پیدا کرنے میں ان کتب کا قابل اطمینان کردار نہیں ہے ۔
کہتے ہیں کہ ہم نے شیخ معلمی ، شیخ اکرم ضیاء العمری ، ڈاکٹر محمود طحان ، شیخ بکر ابو زید وغیرہ کی تصنیفات سے استفادہ تو کیا ہے ، لیکن اسلوب کو بہتر بناکر ، حسب عادت کچھ نیا اور مفید پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔
فنِ تخریج کی کما حقہ تعلیم و تفہیم کے لیے مصنف کے نزدیک تین سمسڑز کا عرصہ درکار ہے ، صرف ایک مستوی میں طالب علم اس فن کی حقیقت سے آشنا نہیں ہوسکتا۔
جیسا کہ کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے ، مصنف تخریج حدیث میں جدید وسائل کو بھی بھرپور استعمال کرنے کے حامی ہیں ، چاہتے ہیں کہ طلبہ کو ان چیزوں کا ایسا استعمال سکھایا جائے ، کہ وہ ان کی خوبیوں کو حاصل کریں ، اور خامیوں سے بچ سکیں ۔
فنِ تخریج کوسیکھنے کے انہوں نے درج ذیل تین مراحل ذکرکیے ہیں :
پہلا مرحلہ:
پہلے مرحلے میں ، طالبعلم کو حدیث تلاش کرنے کا طریقہ بتایا جائے ، وہ چاہے عام فہارس کی مدد سے ہو ، یا کمپیوٹر کے ذریعے ۔ ہاں طریقہ ایسا ہو کہ طالبعلم اس مرحلے کو مکمل کرلینے سے حدیث کی تلاش میں مکمل مہارت حاصل کرلے ۔
اس مرحلے میں انہوں نے تخریج کا لغوی و اصطلاحی معنی اور اس کے مختلف اطلاقات سمجھانے کی کوشش کی ہے ، تخریج کی مختلف اقسام کا تعارف کروایا ہے ، اور اس کے اہداف و مقاصد سے آگاہ کیا ہے۔ معاصرین کی تخریج کی تعریف ( حدیث تلاش کرنا ، اور اس پر صحت و ضعف کا حکم لگانا) ان کے نزدیک درست نہیں ، کیونکہ اس سے متقدمین کے طریقہ تحقیق کی طرف اشارہ نہیں ، لہذا ان کے نزدیک تخریج کی تعریف یوں ہونی چاہیے : حدیث کو اس کے مصادر اصیلہ سے تلاش کرنا ، اور روایت کی تین حالتوں : موافقت ، مخالفت ، اور تفرد ‘ میں سے کسی ایک کا تعین کرنا ۔
اس کے بعد تخریج حدیث میں ممدو معاون ثابت ہونے والی کتبِ فہارس وغیرہ کو چار حصوں کے اندر تقسیم کیا ہے ، کلمات پر مرتب ، موضوعِ حدیث ،اوائل احادیث اور مسانید کے اعتبار سے ترتیب شدہ فہارس ۔ پھر ہر قسم سے متعلق ایک ایک کتاب کا تعارف ، اور اس کے ذریعے سے حدیث تلاش کرنے کا طریقہ سمجھایا گیا ہے ۔ مثلا پہلی قسم کی کتاب المعجم المفہرس ، دوسری قسم کے لیے مفتاح کنوز السنۃ ، تیسری کے لیے موسوعۃ أطراف الحدیث اور چوتھی قسم کے لیے کتب المسانید ، اسی قسم کے آخر میں مزی کی تحفۃ الاشراف وغیرہ کتب اطراف کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے ۔
دوسرا مرحلہ:
اس مرحلے میں پہلے مرحلے سے حاصل شدہ مواد کی ترتیب و تنظیم ، روایات و احادیث کا آپس میں مقارنہ ، ناقدین کے کلام کو صحیح طریقے سے استعمال کرنا سکھایا جائے گا۔ راویوں میں اختلاف و اتفاق ، تفرد و مخالفت وغیرہ سمجھنے کے لیے شجرہ بنانا ، مدار کا تعین کرنا وغیرہ اس مرحلے کا ایک اہم جزء ہے ۔ یہاں کچھ تمارین بھی دی گئی ہیں ، تاکہ طالبعلم کو ایک عملی و تطبیقی نمونہ مل سکے ۔
تیسرا مرحلہ:
رجال کے تراجم پر مشتمل ہے ۔ مصنف کا کہنا ہے ، جنہیں کوئی کام نہیں ملتا ، وہ راویوں کے ترجمے نقل کرکے صفحات بھرنے کی کوشش کرتے ہیں ، حالانکہ رجال کا ترجمہ بقدر ضرورت و حاجت ہونا چاہیے۔
ہر ہر راوی کا ترجمہ کرتے جانا ، یا راوی کے ترجمے میں موجود ہر ہر بات کو نقل کرتے جانا ، درست منہج نہیں ، کس راوی کا ترجمہ کرنا ؟ اور اس کے متعلق کیا ذکر کرنا ہے ؟ یہ سب کچھ تحقیقِ حدیث کی ضرورت و حاجت کو مدنظر رکھتے ہوئے طے کیا جائے گا۔
اسی مرحلہ میں کتب تراجم کا تعارف کروایا گیا ہے ، اور ان سے استفادہ کا طریقہ سمجھایا گیا ہے ۔
اور حسب سابق یہاں بھی عبد الکریم بن ابی المخارق ، عبد اللہ بن لہیعۃ وغیرہ مشہور رواۃ کا مفصل دراسہ پیش کیا گیا ہے ، تاکہ طالب علم اس کے ذریعے مشق اور تمرین کرسکے ۔
عنوان کتاب میں تخریج حدیث میں کمپیوٹر سے مدد لینے کی جو بات موجود ہے ، اس حوالے سے کتاب میں سوائے ایک دو جگہ اشاروں کے عملی طریقہ کارآخر تک کہیں موجود نہیں ۔
یہ کتاب مکمل ایک عملی کتاب ہے ، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے ، کہ مصنف نے اگر ایک بلند بانگ دعوی کیا ہے ، تو خالی باتوں کی بجائے ، بہت محنت کرتے بھی ہیں ، اور طالبعلموں کو بھی اسی انداز سے محنت کروانا چاہتے ہیں ، اختلاف و اتفاق ایک الگ بات ہے ، لیکن بہر صورت اختلاف کا یہ طریقہ بھرپور علمی و تحقیقی ہے ۔
مصنف کی کچھ اور کتب بھی ہیں، لیکن ان کا منہج، اسلوب اور طریقہ کار سمجھنے کے لیے شاید یہ کتابیں کافی ہی نہیں ، بلکہ بہت زیادہ ہیں۔
آئندہ سطور میں ، اپنی سوچ سمجھ اورمطالعہ کی روشنی میں تبصرہ پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔