الموازنۃ بین المتقدمین و المتأخرین
اس کتاب کا مکمل نام اس طرح ہے: الموازنة بين المتقدمين و المتأخرين في تصحيح الاحاديث و تعليلها۔
میرے پیش نظر اس کا دوسرا ایڈیشن ہے جو 2004ء میں طبع ہوا ۔
کتاب دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے، پہلے حصے میں منہجی فرق واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، جبکہ دوسرے حصے میں عملی مثالیں پیش کی ہیں ، کہ جن میں متقدمین و متاخرین کا احکام میں اختلاف ہے ۔ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے صرف ’ تفرد ‘ ، زیادۃ الثقہ ‘ اور ’تقویۃ الحدیث بالشواہد و المتابعات ‘ یعنی ’ حسن لغیرہ ‘ تین مباحث کو موازنہ کے لیے اختیار کیا ہے ۔
وجہ تالیف:
مصنف کا سرسری دعوی یہ ہے کہ متقدمین قرائن کی رعایت کرتے تھے ، جبکہ متاخرین نے اس فن کو ریاضی کی طرح کے قواعد سمجھ لیا ہے ۔ کہتے ہیں ضیاء المقدسی کی ’ المختارۃ‘ ، سیوطی کی تخریجات ، احمد شاکر کی تحقیقات ، شیخ البانی کی تصنیفات ، اور جامعات میں علم حدیث سے متعلق پیش کیے گئے ، مقالہ جات دیکھیں ،سب میں یہی رویہ نظر آتا ہے ۔ لہذا وہ اپنی تالیفات کے ذریعے لوگوں کو صحیح منہجِ تحقیق سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں ۔
متقدمین و متاخرین میں تفریق نیا دعوی ہے؟
مقدمہ میں ہی انہوں نے اس بات کا جواب دیا ہے کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے ، حافظ ذہبی ، ابن حجر اور دیگر ائمہ ، حتی کہ معاصرین بھی ان دونوں اصطلاحات کو استعمال کرتے ہیں ، پھر کئی ایک حفاظ کے اقوال نقل کیے ہیں ، جنہوں نے علم حدیث میں متقدمین پر اعتماد کی تلقین کی ہے ۔! مصنف کو یہ بھی اعتراف ہے کہ سب متاخرین ایک جیسے نہیں ، لیکن اس کے باوجود وہ موازنے کا عنوان ’ بین النقاد و المعاصرین ‘ یا ’ بین المحدثین و الفقہاء ‘ رکھنے کی بجائے ’ بین المتقدمین و المتاخرین ‘ ہی رکھنا بہتر سمجھتے ہیں ۔
کتاب کے پہلےحصے میں موجود چار مباحث میں سے پہلی مبحث متقدمین و متاخرین کے مناہج میں تفریق کے اثبات اور اس کے اسباب بیان کرنے کے لیے خاص کی گئی ہے ۔ اس مبحث کا قیمتی حصہ متاخرین مصطلح کے وہ درجنوں اقتباسات ہیں ، جو متقدمین و متاخرین کے درمیان فرق پر صراحت سے دلالت کرتے ہیں ۔ مثلا حافظ ابن حجر کا کہنا : انبأنا اور اخبرنا متقدمین کے ہاں ایک ہی معنی میں ہیں۔ سخاوی کا کہنا کہ یہ الفاظ متقدمین کے ہاں نہیں ملتے ، اس کا استعمال متاخرین کے ہاں عام ہوا ہے ۔ وغیرہ ۔ اس بحث کے آخر میں انہوں نے جو نتائج اخذ کیے ہیں ، ان میں سے کچھ یہاں نقل کردیتا ہوں :
1۔ بعض علما کے نزدیک متقدمین و متاخرین میں حد فاصل 500 ھ ہے ۔
2۔ متقدمین و متاخرین کے منہج میں جوہری فرق تمام علما تسلیم کرتے تھے ۔
3۔ متقدمین علماء میں بطور مثال درج ذیل نام ذکر کیے جاسکتے ہیں : شعبہ ، یحیی القطان ، ابن مہدی ، احمد بن حنبل ، ابن المدینی ، ابن معین ، ابن راہویہ ، ، بخاری ، مسلم ، ابو داود ، ترمذی ، نسائی ، دارقطنی ، خلیلی ، اور خاتمہ المتقدمین بیہقی ۔
4۔ متاخرین کی فہرست میں درج ذیل نام آتے ہیں : ابن مرابط ، قاضی عیاض ، ابن تیمیہ ، ابن کثیر ، عبد الغنی صاحب الکمال ، ذہبی ، ابن حجر ، ابن صلاح ، ابن حاجب ، نووی ، ابن عبد الہادی ، ابن القطان ، ضیاء المقدسی ، زکی المنذری ، شرف الدمیاطی ، تقی السبکی ، ابن دقیق العید اور امام مزی۔
منہجی تفریق کے اسباب:
مصنف نے متقدمین و متاخرین کے منہج میں تفریق کے اسباب بیان کرنے کے لیے ایک اور تقسیم کرتے ہوئے ، حفاظت سنت کے لیے کی جانے والی کوششوں کو عصر الروایۃ اور ما بعد الروایۃ کے دو مرحلوں میں تقسیم کیا ہے ۔ پہلے مرحلے میں حفاظتِ سنت میں اصل اعتماد ’ رواۃ ‘ پر تھا ، جبکہ دوسرے مرحلے میں اصل اعتماد’ کتب‘ پر تھا ۔ دونوں مرحلوں میں حد فاصل تقریبا پانچویں صدی ہے ۔ اسانید گو دونوں مرحلوں میں موجود ہیں ، لیکن پہلے مرحلے میں راویوں کی کڑی جانچ پڑتال کی گئی ، کیونکہ اعتماد انہیں پر تھا ، جبکہ دوسرے مرحلے میں کتب احادیث ، اور دواوین سنت کی روایت اور حفاظت پر توجہ دی گئی ، اس مرحلے میں اسانید کو اس قدر کھنگالنے اور کڑی شرائط کی ضرورت نہیں تھی ، البتہ کتابوں اور نُسخ میں کمی بیشی کے ذرائع کو مسدود کرنے کی مکمل کوشش کی گئی ۔
اس مضمون کو مصنف نے اپنی کتابوں میں بہت دہرایا ہے ، لیکن مجھے سوائے اس کہ اور کچھ سمجھ نہیں آسکا کہ گویا امتدادِ زمانہ ، تغیرِ منہج کا سبب ہے ۔ اور چونکہ احادیث کی راویوں کے ذریعے تحمل و ادا کا اصل مرحلہ متقدمین کا مرحلہ ہے ، لہذا تحقیق احادیث کے اصول و قواعد بھی وہی درست ہوں گے ، جو اس مرحلے کے اہل علم طے کریں گے ۔
اس کے بعد دوسری مبحث ’ التفرد ‘ سے متعلق ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ متاخرین تفرد ثقہ کو مطلقا قبول اور تفرد ضعیف کو مطلقا رد کرتے ہیں ، حالانکہ متقدمین کے ہاں ہر راوی ، ہر روایت کا حکم الگ تھا ، ان کے ہاں ثقہ کا تفرد مطلقا قبول نہیں ، اور ضعیف کا تفرد مطلقا رد نہیں ۔
تیسری مبحث ’ زیادۃالثقہ ‘ ہے ، مصنف کے نزدیک یہاں بھی متقدمین و متاخرین کا منہج جدا ہے ، متقدمین کا منہج دقت نظری اور تتبع قرائن پر مبنی ہے ، جبکہ متاخرین نے اسے بھی ظاہر پسندی سے دیکھا ہے ، خرابی کی ابتدا ان کے نزدیک کفایۃ الخطیب سے شروع ہوتی ہے ، اور مقدمۃ ابن الصلاح سے ہوتی ہوئی ، باقی کتب مصطلح میں پھیل جاتی ہے ۔ خرابی کی ایک وجہ ان کے نزدیک یہ بھی ہے کہ ائمہ مصطلح اس مسئلہ کو اس کے سیاق و سباق اور متعلقات سمیت پیش نہیں کرپائے ۔ انہوں نے اس تناقض کو بھی بہ تکرار واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایک طرف کچھ لوگ ’ زیادۃ الثقہ مقبولہ ‘ کا اصول ذکر کرتے ہیں ، دوسری طرف شاذ کی تعریف میں ثقہ کے ’ اضافے ‘ کو رد بھی کرتے ہیں ۔ انہوں نے ان سطحی ردود کا بھی شکوہ کیا ہے ، جو اس باب میں متقدمین کے احکام پر کیے جاتے ہیں ، مثلا ابو حاتم کسی راوی کی روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں ، لیکن ان پر یہ تعقب کیا جاتا ہے کہ ’نہیں ، بلکہ زیادۃ ثقہ قبول ہے‘ ، یا ’فلاں نے متابعت کی ہے‘وغیرہ ۔ کہتے ہیں ہمیں اس طرح کی بات کرتے ہوئے ، یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہم ایک متقدم عالم کا تعقب کر رہے ہیں ، کسی مبتدی کو اصول حدیث نہیں پڑھا رہے ۔
چوتھی مبحث ’ تقویۃ الحدیث الضعیف ‘ یعنی ’ حسن لغیرہ ‘ میں انہوں نے حسب عادت ایک بار پھر منہج متقدمین کی طرف لوٹنے کی ضرورت اہمیت کو بیان کیا ہے ، اور ابن الصلاح اور امام ترمذی کی حسن کی تعریف پر تفصیلی گفتگو کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ متاخرین کی تعریفات میں نقص اور اہمال ہے ، جس کی بنا پر کچھ لوگوں نے تعددِ طرق کی بنا پر معلول احادیث کی تحسین کرنا شروع کردی ہے ، جبکہ انتفاء شذوذ و علل اور راویوں کی خطا اور وہم کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں جاتی ۔
علمی موازنہ اور اس کی تطبیقی مثالیں:
کتاب کے اس حصے کومصنف نے دو قسموں میں تقسیم کیا ہے ، وہ احادیث جنہیں متقدمین نے ضعیف کہا ، لیکن متاخرین نے ان کی تصحیح و تحسین کی ، وہ احادیث جنہیں متقدمین نے صحیح کہا ، لیکن متاخرین نے اس کی تضعیف کی ہے ۔ پہلی قسم میں چھ احادیث ، جبکہ دوسری قسم میں ایک حدیث ذکر کی ہے ، ذیل میں ساتوں احادیث اور ان کی تصحیح و تضعیف میں اختلاف اور علما کے نام ذکر کردینا ، ان کے اس موازنے کی نوعیت کو سمجھنے میں مفید ہوگا ۔
پہلی مثال : حدیث ابی ہریرہ ’ إذا سجد أحدكم فلا يبرك كما يبرك البعير و ليضع يديه قبل ركبتيه‘ ہے ۔
یہاں مضعفین میں امام بخاری ، ترمذی ، دارقطنی وغیرہ کا ذکر ہے ، جبکہ تصحیح کرنے والوں میں ابن الترکمانی ، شوکانی ، عبد الرحمن مبارکپوری ، شیخ احمد شاکر ، اور شیخ البانی کا ذکر کیا گیا ہے ۔
محل اختلاف : تضعیف کرنے والے نقاد نے محمد بن عبد اللہ بن الحسن کے ابی الزناد سے تفرد کو علتِ ضعف قرار دیا ہے ، جبکہ متاخرین نے اس کی ثقاہت کو دلیل بناکر وجہ تضعیف کو رد کیا ہے ۔
دوسری مثال: معاذ بن جبل سے مروی جمع تقدیم و تاخیر کی حدیث ہے ۔
اسے امام بخاری ، ابو حاتم رازی ، ابوداود وغیرہ نقاد نے ’ تفرد بہ قتیبۃ عن اللیث و أخطأ فیہ و خالف غیرہ ‘ کی بنیاد پر ضعیف قرار دیا ہے ۔ اس کے علاوہ نسائی ، حاکم ، بیہقی اور متاخرین میں سے ابن حجر ، ذہبی ،معلمی وغیرہ محققین نے بھی اس کی تضعیف کی ہے ۔
جبکہ امام ابن القیم ، علامہ احمد شاکر ،شیخ البانی اور شیخ مقبل بن ہادی نے قتیبۃ بن سعید کی ثقاہت و امامت کی بنیاد پر اس تفرد کو مخالفت کی بجائے زیادۃ الثقہ کے طور پر قبول کیا ہے ۔ ان علما نے اس حدیث کے مزید کچھ شواہد بھی بیان کیے ہیں ۔
تیسری مثال: ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیثِ طلاق ہے ۔
اس میں محل نزاع ’ فردها علي ‘ کے ساتھ ’و لم يرها شيئا‘ کے الفاظ ہیں ، کیونکہ یہ صرف ابو الزبیر کی روایت میں ہیں ، باقی نافع ، سعید بن جبیر اور کبار اصحاب ابن عمر میں سے کسی نے یہ الفاظ ذکر نہیں کیے ۔
یہاں مضعفین میں انہوں نے ابو داود ، ابن عبد البر ، خطابی ، ابن رجب کا ذکر کیا ہے ، اور امام بخاری و مسلم کو بھی اسی طرف ذکر کیا ہے ، کیونکہ انہوں نے نافع کی روایت ذکر کی ہے ،اور ابو الزبیر کی روایت نہیں لائے ۔
جبکہ امام ابن القیم ، علامہ احمد شاکر ، اور شیخ البانی نے روایت ابی الزبیر کی تصحیح کی ہے ۔ انہوں نے روایۃ ابی الزبیر کو مخالفت کی بجائے ، ’زیادۃ بیان ‘کے قبیل سے لیا ہے ، بلکہ شیخ البانی نے اس کی متابعت بھی ذکرکی ہے ۔
چوتھی مثال : ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث ’لم يرفع يديه إلا في أول مرة‘ ہے۔
اس حدیث کو ابن مبارک ، ابو داود ، احمد ، ابوحاتم ، بخاری ، دارقطنی ، ابن عبد البر ، ابن حبان وغیرہ ائمہ نےضعیف قرار دیا ہے ۔
جبکہ اس تضعیف کو رد کرنے والوں میں ابن دقیق العید ، منذری ، زیلعی ، اور نصب الرایۃ کے محشی کے اقوال ذکر کیے گئے ہیں ۔
وجہ اختلاف : عاصم بن کلیب کی حالت ، سفیان ثوری یا وکیع کی خطأ ، دیگر احادیث کی مخالفت وغیرہ۔
پانچویں مثال : ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث رفع الیدین ہے ۔
اسے عبد اللہ بن عون الخزاز نے ’ يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ثم لا يعود‘ کے الفاظ سے ذکر کیا ہے ، جبکہ امام مالک کے باقی تمام شاگردوں ، امام زہری کے شاگردوں ، اور امام نافع کے شاگردوں نے معروف رفع الیدین کی احادیث کی طرح روایت کیا ہے ۔
امام حاکم ، بیہقی ، ابن حجر ، ابن قیم نے خزاز کی روایت کو موضوع اور خطا قرار دیا ہے ۔
جبکہ حافظ مغلطای ، شیخ عابد سندھی وغیرہ نے اس تضعیف کو رد کرنے کی کوشش کی ہے ۔
یہیں پر مصنف نے شیخ البانی اور شیخ عبد الفتاح ابو غدۃ کے مابین ہونے والے اس طویل مناقشے کو بھی ذکر کیا ہے ، جو اس حدیث کی تحقیق کے متعلق دونوں کےدرمیان ہوا ۔
وجہ اختلاف : خزاز کا تفرد اور مخالفت ہے ۔
چھٹی مثال : نماز کے اختتام میں تسلیمتین کے متعلق حدیث میں وارد ’ السلام علیکم و رحمۃ اللہ ‘ کے ساتھ ’ و برکاتہ‘ کے الفاظ ہیں ۔
اس حدیث کے بعض طرق میں ’ وبرکاتہ ‘ کے الفاظ ہیں ، اکثر میں نہیں ، عبد الحق صاحب الاحکام ، حافظ ابن حجر ، صنعانی ، صاحب عون المعبود اور شیخ البانی وغیرہ نے اس اضافے والی روایت کو بھی درست قرار دیاہے ۔
مصنف نے تفصیل سے بحث کی کہ یہ اضافہ درست نہیں ، لیکن اس رائے کےقائلین میں متقدمین و متاخرین میں سے کوئی نام ذکر کرنے کا التزام نہیں کیا۔
ساتویں مثال: صحیح مسلم کی معروف حدیث ’الطهور شطر الإيمان‘ ہے۔
مصنف نے اس کی تضعیف علائی ، نووی ، ابن رجب ، ابن القطان الفاسی ، اور معاصرین میں سے مقبل بن ہادی اور ربیع بن ہادی کے ذمے لگائی ہے ۔
وجہ اختلاف : سند کے ایک راوی ابو سلام کا سماع وغیرہ ۔
جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ، ساتویں مثال کا تعلق دوسری قسم سے ہے ، یعنی وہ احادیث جو متقدمین کے ہاں صحیح ہیں ، لیکن متاخرین یا معاصرین نے ان کی تضعیف کی ہے ، اسی ضمن میں انہوں نے معاصرین کا بعض راویوں کی تدلیس کی بنا پر احادیث کی تضعیف کرنا بھی ذکر کیا ہے۔