سوال (4094)
ایک سوال ہے کہ درج ذیل حدیث میں جو “زوجین” کا لفظ آیا ہے، اس کا کیا مفہوم ہے؟ کیا اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ کی راہ میں ایک سو روپے خرچ کرے تو وہ 50- 50 روپے کے دو علیحدہ خرچ کرے؟ یا اس کا مفہوم کچھ اور ہے؟
“من انفق زوجين في سبيل الله نودي من أبواب الجنة: يا عبد الله، هذا خير، فإن كان من أهل الصلاة دعي من باب الصلاة، وإن كان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد، وإن كان من أهل الصيام دعي من باب الصيام.”
[صحیح بخاری، کتاب الجهاد، حدیث نمبر 2816، صحیح مسلم، کتاب الزکاة، حدیث نمبر 1153]
جواب
دو چیزیں ترغیب دی گئی ہیں کہ دوہرا خرچ کرے، جیسا کہ اگر لباس ہے تو پورا لباس دے، لباس میں ایک کرتہ ہے، ایک ازار ہے، یعنی کوئی بھی چیز دیتا ہے تو جوڑا کرکے دے، اس کو بعض اہل علم نے اس طرح بیان کیا ہے کہ پچاس کے دو دو نوٹ اللہ تعالیٰ کے راستے میں دے، تاکہ ذہن میں یہ ہو کہ زوجین کا ذکر ہے تو اس پر عمل کرلوں، اس کا ظاہری معنی یہ ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
جو کچھ مجھے اسلاف رحمھم اللہ کی توضیحات پڑھ کر سمجھ آیا لکھ رہا ہوں.
“زوج” کا مطلب ہے: جوڑا یا ہم جنس چیز کا ایک حصہ۔
“زوجین” یعنی دو ہم جنس چیزیں — جیسے دو کپڑے، دو درہم، دو اونٹ وغیرہ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“أي شيئين متساويين من نوع واحد.”
یعنی: “دو ایسی چیزیں جو نوع (قسم) میں ایک جیسی ہوں۔”
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (فتح الباری 6/44):
“المراد بالزوجين الشيئان من جنس واحد، كدرهمين أو دينارين…”
یعنی: “زوجین سے مراد ایک جیسے دو چیزیں ہیں، جیسے دو درہم یا دو دینار۔”
حدیث کا عمومی مفہوم جو شخص اللہ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کرتا ہے، کم از کم جوڑا بنا کر دیتا ہے (زوجین)، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے جنت کے دروازوں سے بلائے گا۔
مطلب یہ کہ وہ شخص عبادات کے مختلف شعبوں میں ممتاز ہو گا: اگر نماز میں نمایاں ہے تو باب الصلاۃ سے بلایا جائے گا، اگر روزے میں نمایاں ہے تو باب الریان سے، اگر جہاد میں نمایاں ہے تو باب الجہاد سے، اور اگر ہر شعبے میں آگے ہے تو تمام دروازے اسے بلائیں گے۔
کیا 50- 50 روپے خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے؟
نہیں، جیسا کہ پہلے عرض کیا، زوجین کا مطلب صرف دو عدد یا دو قسطوں میں دینا نہیں بلکہ دو ہم جنس اشیاء دینا ہے۔
مثلاً: اگر کسی نے 100 روپے میں سے دو نوٹ (50 + 50) الگ الگ جگہ دیے، تو اگر وہ ایک ہی جنس (یعنی روپے) میں شمار ہوں، تب اس کے تحت آ سکتا ہے — مگر اصل مراد دو الگ الگ عددی اشیاء دینا ہے۔
اصل فضیلت اس کثرتِ انفاق کی ہے جو ایک جیسی چیزوں کی صورت میں ہو۔
بعض اہلِ علم کہتے ہیں کہ:
یہ حدیث “تشویق” کے لیے ہے، یعنی مومن کو ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ خیر میں مسلسل خرچ کرے، اور جو بھی دے، کم از کم دو کی تعداد میں دے تاکہ وہ زوجین کے تحت آئے۔
یہ کم از کم معیار کو ظاہر کرتی ہے کہ اللہ کی راہ میں مستقل اور فراخ دل خرچ کرنے والے کی کیا عظمت ہے۔
“زوجین” سے مراد ہے دو ہم جنس چیزیں۔
50 -50 روپے دینا تب اس میں آ سکتا ہے جب وہ دو الگ ہمعنٰی دینا کہلائے۔
اصل مفہوم یہ ہے کہ بندہ اللہ کی راہ میں فراخ دلی اور تسلسل سے خرچ کرے۔
جو شخص خیر کے ہر میدان میں آگے ہو، جنت کے تمام دروازے اس کے لیے کھلیں گے۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ